(ویب ڈیسک)روسی صدر ولادیمیر پیوٹن گذشتہ روز 2 روزہ دورے پر بھارت پہنچے، جو ماسکو اور نئی دہلی کے درمیان تقریباً 8 دہائیوں پر محیط مضبوط شراکت داری کو اجاگر کرتا ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دعوت پر کریملن کے سربراہ نئی دہلی میں ہونے والی بھارت۔روس سالانہ سربراہ ملاقات کے 23 ویں اجلاس میں شرکت کریں گے۔
یہ صدر پیوٹن کا 2022 میں یوکرین پر روس کے بڑے حملے کے بعد بھارت کا پہلا دورہ ہے۔
دونوں ممالک نے اپنی خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو مزید مضبوط بنانے کا اشارہ دیا ہے جو 2010 میں دو طرفہ تعلقات کا باضابطہ درجہ قرار دیا گیا تھا۔
دورے سے قبل صدر پیوٹن کے چیف آف اسٹاف اور کریملن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے بھارت اور روس کے تعلقات اور تجارت کے دفاع کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارت کو روسی تیل کی خریداری پر امریکی ٹیرف کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ویرات کوہلی کا ’ناگن ڈانس‘ وائرل
جبکہ روس یوکرین جنگ کے سبب مغربی پابندیوں کی بڑھتی ہوئی فہرست سے نبردآزما ہے۔
India’s PM Narendra Modi broke with tradition, greeting Russian President Vladimir Putin with a warm hug instead of a handshake as he stepped off the plane in New Delhi.
Putin is on a two-day state visit looking to shore up economic, defense and energy ties. pic.twitter.com/FmjT9ygUeb
— DW News (@dwnews) December 5, 2025
پیسکوف نے کہا کہ ہمیں اپنی تجارت کو بیرونی دباؤ سے محفوظ رکھنا ہے۔
انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ تجارت کے لیے متبادل ادائیگی کے طریقۂ کار پر بات چیت جاری ہے، تاکہ پابندیوں سے بچا جا سکے۔
ایجنڈے میں بھارتی کارکنوں کی روس منتقلی کا معاملہ بھی شامل ہے کیونکہ وہاں روزگار کے مواقع تلاش کرنے والے بھارتی شہریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
ترجمان نے دفاعی تعاون کا بھی ذکر کیا، جن میں S-400 فضائی دفاعی نظام، سخوئی-57 لڑاکا طیارے اور چھوٹے ماڈیولر نیوکلیئر ری ایکٹرز کی فروخت شامل ہیں۔
بھارت روسی اسلحے کا دنیا کا سب سے بڑا خریدار ہے، اور یوکرین جنگ سے پہلے تقریباً 2 فیصد کے مقابلے میں اب روس بھارت کی 35 فیصد سے زائد خام تیل کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔
امریکی دباؤ کے باوجود بھارت۔روس تعلقات مضبوط
ماہرین اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اور روس کے تعلقات مغربی دباؤ، خصوصاً امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ ٹیرف کے باوجود مضبوط رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:بڑی خبر،امن معاہدہ طے پا گیا
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر آف رشیئن اسٹڈیز کے راجن کمار کے مطابق صدر پیوٹن کا دورہ اس بات کا واضح پیغام ہے کہ روس عالمی امور میں تنہا نہیں۔
ان کے مطابق بھارت اپنی سفارت کاری میں روس کو اس لیے بھی اہم سمجھتا ہے تاکہ وہ عالمی سطح پر مغرب اور چین، دونوں کے ساتھ توازن برقرار رکھ سکے۔
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی پالیسیوں نے کے ساتھ اعتماد میں کمی پیدا کی ہے اور روس کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔
’ساتھ ہی روس کو الگ تھلگ کرنا اسے چین کے مزید قریب کر سکتا ہے، جو بھارت کے مفاد میں نہیں۔‘
ان کے مطابق روس بھی چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے محتاط ہے، اسی لیے وہ بھارت کو ایس سی او اور برکس جیسے فورمز کے ذریعے یوریشیئن سیاست میں زیادہ فعال دیکھنا چاہتا ہے۔
’مزید یہ کہ روس بھارت کے اندرونی مسائل پر تنقید نہیں کرتا، نہ ہی تعاون کے لیے شرائط عائد کرتا ہے۔‘
بھارت اور روس کے تعلقات کی تاریخی بنیاد
بھارت کی آزادی کے فوراً بعد ماسکو اور نئی دہلی کے تعلقات قائم ہوئے، سوویت یونین نے بھارت کی صنعتی ترقی میں مدد کی اور مسئلہ کشمیر سمیت متعدد معاملات میں سفارتی حمایت فراہم کی۔
1971 کی پاک۔بھارت جنگ میں ماسکو نے کھل کر بھارت کی حمایت کی جبکہ امریکا اور چین نے پاکستان کی پشت پناہی کی۔
دونوں ممالک کے دفاعی تعلقات سرد جنگ کے خاتمے کے باوجود قائم رہےاور روس نے بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی، لڑاکا طیاروں اور جوہری آبدوزوں کے پروگرام میں اہم کردار ادا کیا۔
2014 میں مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھی تعاون میں اضافہ ہوا خاص طور پر جوہری توانائی اور یورینیم کے شعبوں میں۔
مزید پڑھیں:صوبائی وزیر بال بال بچ گئے
یوکرین جنگ کے دوران بھارت نے محتاط رویہ اپناتے ہوئے روس کی کھلی مذمت نہیں کی، بلکہ جنگ کے خاتمے کی اپیل کی۔
تبدل ہوتے عالمی حالات میں اسٹریٹیجک خودمختاری
نیو دہلی کی پالیسی یہ ہے کہ اسٹریٹیجک شراکت داریاں صفر جمع کا کھیل نہیں ہوتیں۔
بھارت امریکا کے ساتھ جی ای ایرو اسپیس اور ایچ اے ایل کے درمیان 1 ارب ڈالر کے انجن معاہدے جیسے بڑے دفاعی معاہدوں پر بھی آگے بڑھ رہا ہے جبکہ دوسری جانب وہ پیوٹن کا پرتپاک استقبال بھی کر رہا ہے۔
تاہم امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھارتی ریفائنرز نے متبادل سپلائرز کی تلاش بھی شروع کی ہے۔
سابق بھارتی سفیر کنول سبل سمجھتے ہیں کہ امریکا بھارت کی خارجہ پالیسی طے نہیں کر سکتا، بھارت وہیں شراکت داری کرتا ہے جہاں اس کے مفاد میں ہو، اور امریکی دباؤ کو بھی مناسب حد تک روکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کے ساتھ تعاون جاری رہے گا، مگر روس کی اسٹریٹیجک اہمیت برقرار رہے گی۔


