لاہور: الیکٹرک ٹرام چھ ماہ پہلے پہنچنے کے باوجود چلی نہ روٹ کا تعین ہوا

390803 1197278821


پنجاب حکومت نے جولائی میں چین سے ماحول دوست الیکٹرک ٹرام منگوائی گئی تھی تاہم وہ ابھی تک چلنی شروع ہوئی اور نہ ہی کوئی روٹ فائنل ہو سکا۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی آبادی بھی ملک کے دیگر شہروں کی طرح تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ دو سال پہلے یعنی 2023 کی مردم شماری میں بتایا گیا کہ لاہور کی آبادی ایک کروڑ 30 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ لہٰذا گذشتہ دو دہائیوں سے ہر صوبائی حکومت کو اس گنجان اور صوبائی شہرِ اقتدار کو پبلک ٹرانسپورٹ کا مؤثر نظام فراہم کرنے کا چیلنج درپیش رہا ہے۔

شہباز شریف حکومت نے 2008 سے 2013 تک کے دورِ حکومت میں ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے تحت لاہور میں میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین جیسے پبلک ٹرانسپورٹ کے بڑے منصوبوں کو عملی شکل دی جبکہ راولپنڈی اور ملتان میں بھی میٹرو بس سروس شروع ہوئی۔ موجودہ دورِ حکومت میں بھی یہ چیلنج برقرار ہے، اسی لیے لاہور سمیت مختلف شہروں میں ماحول دوست الیکٹرک بسیں چلائی جا رہی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی کہ اگست میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چینی ماہرین کے ساتھ کینال روڈ پر ٹیسٹ رن بھی اپنی نگرانی میں کرایا۔ ستمبر میں ایکسپو سینٹر میں ہونے والی گاڑیوں کی نمائش میں بھی اس الیکٹرک ٹرام کو نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔ لیکن اس ساری نمائش کے باوجود پہلے لبرٹی میں بلیوارڈ اور پھر کینال روڈ پر ٹرام چلانے کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں ہو سکا؟

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر ہاؤسنگ بلال یاسین نے بتایا کہ ’کینال روڈ پر ٹرام چلانے کی پوری تیاری تھی۔ لیکن لاہور ہائی کورٹ نے درخت کاٹنے سے منع کر رکھا ہے۔ کینال روڈ کے اطراف کافی درخت ہیں جنہیں کاٹے بغیر روٹ نہیں بنایا جا سکتا۔ لہٰذا ہم مختلف آپشنز اور روٹس پر غور کر رہے ہیں۔ جلد ہی ٹرام چلانے کے لیے کوئی روٹ فائنل کر کے اسے چلایا جائے گا۔‘

پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی کے ٹیکنیکل آفیسر کامران احسان نے ستمبر میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا تھا کہ ’یہ ٹرام ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ ڈیپارٹمنٹ کا ایک اقدام ہے، ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کے تحت اورنج لائن ٹریک ٹھوکر سے نہر تک کے 30 کلو میٹر روٹ پر چلے گی۔ یہ سپر آٹانومس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم ہے، جس میں ایک رائیڈ میں 300 مسافر بیٹھ سکتے ہیں۔ اس ٹرام کا روٹ ابھی طے کیا جا رہا ہے۔ ابھی یہ فزی بیلٹی کے مرحلے سے گزر رہی ہے اور رونمائی اور ٹیسٹنگ کے لیے منگوائی گئی ہے۔ یہ ٹرام مکمل الیکٹرک ہے اور مسافروں کی گنجائش زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کی فی رائیڈ قیمت کم ہے۔ ہر دن ایک لاکھ 60 ہزار مسافر اس میں سفر کریں گے۔‘

لیکن یہ سب دعوے اپنی جگہ، تین بوگیوں پر مشتمل الیکٹرک ٹرام ابھی تک عوام کے لیے نہیں چلائی جا سکی اور نہ ہی مزید ٹرام چین سے منگوائی گئی ہیں۔ حکام نے اس منصوبے پر آٹھ سے نو ارب روپے لاگت کا تخمینہ بتایا تھا۔





Source link

متعلقہ پوسٹ