اسلم ندارسلہری
سابق امیدوارصوبائی اسمبلی حلقہ49:)
دسمبرکامہینہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی وجمہوری حلقوں کے لیے ہرسال ایک نہ ختم ہونے والادکھ،سوالوں کاطوفان اورپرانے زخموں کی نئی یادیں لےکر آتاہےایسازخم وقت جس کی مرہم نہ بن سکا۔وقت اور موسم بدلتے رہے لیکن دسمبرکایہ زخم آج بھی تروتازہ ہے اوریہ بھرنے کانام نہیں لے رہاکیونکہ یہ ایک فردکے نہیں بلکہ ایک نظریہ ایک خواب اورایک عہدکازخم ہے ایک عہداورنظریہ زخمی نہیں بلکہ لہولہان ہواتھا
شہادتِ محترمہ بےنظیربھٹوپاکستان کی تاریخ کاوہ المناک باب ہےجس کےہرحرف پرخون آنسواورسوال رقم ہیں یہ سانحہ محض ایک سیاسی قائدکے قتل تک محدود نہیں بلکہ یہ عوام کے حقِ حکمرانی،آئین کی بالادستی اورجمہوری تسلسل پرکاری ضرب تھی 27 دسمبر 2007ء کوراولپنڈی کے لیاقت باغ میں گولی ایک انسان پر نہیں ایک نظریے پرچلائی گئی اس نظریےپر جوآمریت کے اندھیروں میں بھی عوام کے چراغ جلائے رکھتا تھا۔
بے نظیربھٹو کی زندگی ابتداہی سے سیاست اور قربانیوں کے حصارمیں رہی۔ ایک منتخب وزیر اعظم، قائدِعوام ذوالفقار علی بھٹوکوعدالتی فیصلے کی آڑ میں تختۂ دارپرلٹکادینادراصل جمہوریت کے دل پر پہلابڑاوارتھا۔اس لمحے ایک بیٹی نے باپ کھویااورایک قوم نے اپنی امید۔مگریہی صدمہ بےنظیرکے لیے شکست نہیں بنابلکہ عزم کی بنیادبن گیا۔انہوں نے طے کرلیاکہ وہ اپنے والدکے نظریے کوزندہ رکھیں گی، چاہے اس کی قیمت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِآمریت میں بے نظیربھٹونے وہ صعوبتیں برداشت کیں جومضبوط ترین اعصاب کے حامل انسان کوبھی توڑسکتی تھیں۔باربارگرفتاریاں، قیدِتنہائی،شدیدگرمی میں جیل کی کوٹھڑیاں،علاج اوربنیادی سہولتوں سے محرومی یہ سب ان کے روزمرہ کاحصہ تھا۔مگرانہوں نے قیدکوکمزوری کے بجائے طاقت بنایا۔جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی ان کایقین پختہ رہا کہ آمریت عارضی اورجمہوریت دائمی ہوتی ہے۔
قیدوبندکےبعدجلاوطنی کاکرب آیا۔وطن سے دوری، ماں دھرتی کی خوشبوسے محرومی اورکارکنوں سے فاصلے کے باوجودبے نظیربھٹو کی آوازخاموش نہ ہوئی۔ جلاوطنی میں بھی وہ پاکستان کے مظلوم عوام کا مقدمہ عالمی فورمزپر لڑتی رہیں۔انہوں نے دنیا کو بتایا کہ یہ قوم آمریت کے سائے میں سانس نہیں لے سکتی، اور بالآخر تاریخ نے ثابت کیا کہ ان کی آواز بے اثرنہیں گئی۔
1986ء میں وطن واپسی نے آمریت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا۔لاہور کی سڑکوں پرامڈآنے والاانسانی سمندراس بات کی گواہی تھا کہ عوام اپنی قائد کو سینے سے لگانے کے لیے بے تاب ہیں۔دوسال بعد 1988ء میں بے نظیر بھٹو عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔یہ کامیابی صرف ان کی نہیں تھی بلکہ ہراس عورت ہراس مظلوم اورہراس جمہوریت پسند کی تھی جوبنددروازوں کے پیچھے انصاف کامنتظرتھا۔
اقتدارمیں آکر بھی ان کے لیے راستے ہموارنہ ہوئے۔منتخب حکومتوں کی برطرفی،کردارکشی کی منظم مہمات،سیاسی سازشیں اورطاقتورحلقوں کی مزاحمت مسلسل ان کا تعاقب کرتی رہی۔اس سیاسی کشمکش کے ساتھ خاندانی سانحات نے ان کے دل کومزیدزخمی کیا۔ شاہنواز بھٹو کی پراسرار موت اورمرتضیٰ بھٹو کی سرِعام شہادت ایسے زخم تھے جو شاید کبھی مندمل نہ ہو سکے مگر بے نظیر بھٹو نے ذاتی دکھ کو قومی مفاد پرقربان کردیا۔
2007ء میں وطن واپسی ان کی سیاسی زندگی کاسب سے نازک اورخطرناک مرحلہ تھا۔انہیں واضح طور پر بتایا گیا کہ ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں مگر انہوں نے خوف کے آگے سر جھکانے سے انکارکردیا۔ سانحہ کارساز انہیں ڈرانے اور انتخابی میدان سے باہر دھکیلنے کی ایک کوشش تھی۔سینکڑوں کارکنوں کی شہادت کے باوجود وہ پیچھے نہ ہٹیں۔زخمیوں کی عیادت، شہداءکے لواحقین سے ملاقات اورعوام کے سامنے ڈٹ کرکھڑاہوناان کے حوصلے کی روشن مثال تھا۔کارساز کے بعدان کی عوامی مقبولیت ایک نئی بلندی کو چھونے لگی۔عوام انہیں محض ایک سیاست دان نہیں، جمہوریت کی علامت سمجھنے لگے۔یہی بڑھتی ہوئی مقبولیت جمہوریت دشمن قوتوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گئی۔جب ہرحربہ ناکام ہوگیاتو 27 دسمبر 2007ء کا خونی دن رقم کیا گیا۔لیاقت باغ میں ہونے والاسانحہ آج بھی سوالات سے گھراہواہے۔سکیورٹی کی سنگین ناکامیاں،شواہد کا ضائع ہونا اور حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوششیں اس سانحے کو مزید پراسرار اور دل خراش بنا دیتی ہیں۔
بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعدملک بھرمیں غم و غصے کی لہردوڑ گئی۔عوام سڑکوں پرنکل آئے،آنسوؤں اورنعروں کے ساتھ اپنی قائدکوخراجِ عقیدت پیش کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس نازک موقع پرصبر،برداشت اورجمہوری راستے کا انتخاب کیاوہی راستہ جو بے نظیر بھٹو کی سیاست کامحورتھا۔انتقام کے بجائے آئین اور پارلیمان کی بالادستی کو ترجیح دی گئی،تاکہ شہید کا خواب زندہ رہ سکے۔
آج جب ہم شہادتِ بے نظیر کو یاد کرتے ہیں تو یہ صرف ایک ماضی کاحوالہ نہیں بلکہ حال اور مستقبل کے لیے ایک پیغام ہے۔یہ پیغام کہ جمہوریت آسانی سے نہیں ملتی اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔بے نظیر بھٹو نے اپنی جان دے کر یہ ثابت کردیاکہ نظریے کوگولیوں سے خاموش نہیں کرایاجاسکتا۔
وہ آج بھی گڑھی خدابخش میں آسودۂ خاک ضرورہیں، مگرقوم کے دلوں میں زندہ ہیں۔ہردسمبر ان کی یاد تازہ کرتا ہےہرآنسوان کے مشن کی گواہی دیتا ہےاورہر جمہوریت پسنددل یہ عہددہراتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی۔ان کاخون جمہوریت کی شمع بن چکاہےایسی شمع جس کووقت کی آندھیاں بھی اسکوبجھانہیں سکتیں۔

