سعودی حکومت نے اگلے سال کے حج کے لیے صحت سے متعلق سخت شرائط نافذ کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ مخصوص سنگین یا متعدی بیماریوں میں مبتلا افراد حج کی ادائیگی کے لیے سفر کی اجازت حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اس اعلان نے دنیا بھر کے ان لاکھوں مسلمانوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے جو ہر سال اس فریضے کی سعادت حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ نئے قواعد کے تحت ایسی تمام بیماریاں اور طبی پیچیدگیاں تفصیل سے بیان کی گئی ہیں جن کی موجودگی میں کسی بھی شخص کو حج کے سفر پر روانہ نہیں کیا جائے گا، جبکہ مانیٹرنگ کے سخت انتظامات بھی متعارف کرائے گئے ہیں۔
وزارت مذہبی امور کی جانب سے شائع کردہ نوٹس میں واضح کیا گیا ہے کہ گردوں کے سنگین امراض، خاص طور پر وہ مریض جنہیں ڈائیلاسس کی ضرورت ہو، آئندہ سال حج نہیں کرسکیں گے۔ اس کے ساتھ دل کے وہ مریض بھی شامل ہیں جو معمولی جسمانی مشقت بھی برداشت نہیں کرسکتے یا جن کی حالت میں سفر کی مشقت کسی خطرے سے خالی نہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق حج جیسے اجتماع میں مسلسل چلنا، گرمی، رش اور طویل جسمانی سرگرمی دل کے کمزور مریضوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، اسی لیے یہ فیصلہ حفاظتی نقطۂ نظر سے ناگزیر سمجھا گیا ہے۔
پھیپھڑوں کے وہ مریض جنہیں آکسیجن کی مسلسل یا وقفے وقفے سے ضرورت پڑتی ہے، اس فہرست میں نمایاں طور پر شامل ہیں۔ جگر کی ناکامی یا سروسس کے مریض، ذہنی و اعصابی بیماریوں میں مبتلا افراد جیسے ڈیمنشیا، الزائمر، شدید ٹریمر، یا وہ لوگ جو روزمرہ کے فیصلوں اور جسمانی حرکات میں دوسروں پر مکمل انحصار کرتے ہوں، ان سب کو بھی حج کی اجازت نہیں مل سکے گی۔ اسی طرح حاملہ خواتین کے حوالے سے واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ آخری مہینے کی حاملہ خواتین یا وہ جن کے حمل کے دوران پیچیدگیاں ہوں، انہیں سفر کی اجازت نہیں دی جائے گی، کیونکہ سفر کے دوران ہنگامی طبی سہولیات کی عدم دستیابی ماں اور بچے دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
نوٹس میں خاص طور پر ان بیماریوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن کے ذریعے بڑے اجتماعات میں تیزی سے انفیکشن پھیل سکتا ہے۔ کھانسی، ٹی بی اور وائرل ہیمرجک فیور جیسی متعدی بیماریوں والے افراد کو نہ صرف حج سے روکا جائے گا بلکہ انہیں کسی بھی مرحلے پر ویکسینیشن کیمپ میں ایسی علامات پائے جانے پر فوری طور پر سفر سے روکنے کا اختیار میڈیکل افسران کو تفویض کر دیا گیا ہے۔ کینسر کے وہ مریض جو کیموتھراپی یا ریڈیوتھراپی کے آخری مراحل میں ہوں، ان کے بارے میں بھی یہی فیصلہ نافذ ہوگا کیونکہ ایسے افراد کا مدافعتی نظام انتہائی کمزور ہوتا ہے اور وہ کسی بھی بڑے اجتماع میں شدید خطرات کا شکار رہ سکتے ہیں۔
پاکستان کی وزارت مذہبی امور نے اس سلسلے میں ملکی ڈاکٹروں کو خصوصی ہدایات جاری کی ہیں کہ صحت کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے پہلے حاجیوں کی مکمل اور تفصیلی جانچ لازمی کریں۔ سرکاری نوٹس کے مطابق اگر کوئی ڈاکٹر غلط یا غیر حقیقی صحت کی معلومات فراہم کرتا ہے تو اس کے نتائج نہ صرف متعلقہ حاجی کو بھگتنا پڑیں گے بلکہ ممکنہ قانونی کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔ مزید یہ کہ اگر کسی حاجی کی بیماری سفر کے دوران یا سعودی عرب میں پہنچنے پر سامنے آئی تو اسے اپنے خرچے پر وطن واپس بھیجا جائے گا، جس کی ساری ذمہ داری اسی شخص پر عائد ہوگی۔
سعودی حکام نے واضح کیا ہے کہ تمام داخلی اور خارجی مقامات پر خصوصی مانیٹرنگ ٹیمیں مقرر کی جائیں گی، جو حاجیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹس کی جانچ اور تصدیق کریں گی۔ یہی ٹیمیں مناسکِ حج کے مختلف مقامات پر بھی موجود رہیں گی تاکہ کسی ایسے فرد کو حج میں شامل نہ ہونے دیا جائے جو مقررہ صحت کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو۔ اس سخت نگرانی کا مقصد کسی بھی بڑے پیمانے پر پھیلنے والی بیماری کے خطرے کو روکنا اور لاکھوں زائرین کے لیے محفوظ ماحول کو یقینی بنانا ہے۔
گزشتہ برسوں میں دورانِ حج پیش آنے والی اموات کو بین الاقوامی میڈیا میں ایک بڑے اسکینڈل کے طور پر بارہا پیش کیا جاتا رہا ہے، اور بعض حلقے ممکنہ طور پر سعودی منتظمین پر براہِ راست ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ تاہم اس ساری بحث میں وہ سنگین طبی اور جسمانی عوامل دانستہ طور پر نظر انداز کیے جاتے رہے جو حقیقت میں ان اموات کے بنیادی اسباب تھے۔ شدید گرمی، کمزوری، دل کی بیماریاں، دماغی مسائل، معمر افراد کی کمزور صحت، اور متعدی بیماریوں کا خطرہ وہ تمام عناصر تھے جنہیں اکثر رپورٹس میں شامل ہی نہیں کیا گیا، جو صحافتی دیانت داری کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اب جبکہ سعودی انتظامیہ نے صحت کے سخت اصول نافذ کیے ہیں، توقع ہے کہ ایسے ناخوشگوار واقعات میں نمایاں کمی آئے گی، جس کا فائدہ نہ صرف لاکھوں زائرین کو ہوگا بلکہ وہ افراد بھی غیر ضروری خطرات مول لے کر حج کے دوران جان گنوانے سے محفوظ رہ سکیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حج ایک روحانی عظمت رکھنے کے باوجود جسمانی طور پر کٹھن عبادت ہے اور اسلام نے اس کی بنیادی شرط ہی صحت مند ہونا رکھی ہے۔ ان نئے قواعد کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ سعودی حکام پر گزشتہ برسوں میں عائد کیے جانے والے بے بنیاد الزامات کا بوجھ کم ہو اور حج کے انتظامات کو شفاف اور محفوظ بناتے ہوئے ایک متوازن نقطۂ نظر سامنے لایا جاسکے۔

