سرحدی کشیدگی: پاک، افغان تجارت معطل، ہزاروں تاجر بھی پھنس گئے

381602 1003645627


رواں سال اکتوبر سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے بعد مشترکہ سرحد جہاں تجارت کے لیے مکمل طور پر بند ہے وہیں دونوں ممالک کے سینکڑوں تاجر اور مزدور بھی پھنسے ہوئے ہیں۔

ان پھنسے تاجروں کی واپسی کے لیے کوششیں جاری ہیں جس سلسلے میں چمبر آف کامرس چمن کا وفد اسلام آباد  کے آج کل دورے پر ہے۔ دوسری جانب چمن کے قبائلی عمائدین اور تاجروں پر مشتمل ایک جرگہ بھی صوبائی سطح پر کاوشوں میں مصروف ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دونوں جانب تقریباً تین ہزار تاجر  پھنسے ہوئے ہیں جن میں تقریباً 12 سو پاکستانی اور 18 سو افغان تاجر شامل ہیں۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے پیر کو ہونے والے اجلاس میں وزارت تجارت کے حکام نے کہا کہ انہوں نے افغانستان سے سرحد بند کرنے کی سفارش نہیں کی۔ سرحدوں کی بندش سے پاکستان کی پورے وسطی ایشیا تک تجارت بھی متاثر ہو رہی ہے۔

پاکستان افغانستان سرحدی جھڑپوں کے بعد طورخم اور چمن جیسے اہم تجارتی راستے بند ہیں، جس نے تجارت کو مفلوج کر دیا ہے اور قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

حالیہ تناؤ کے بعد سرحدوں پر دونوں جانب سامان سے بھرے کنٹینرز موجود ہیں۔

وزارت تجارت کے حکام نے کہا کہ پاکستان کی بندرگاہوں پر وسطی ایشیائی ممالک کے کنٹینرز بھی رکے ہوئے ہیں اور ہم نے ان ممالک کو کہا گیا ہے کہ وہ ایران یا چین کے راستے اپنے کنٹینرز لے جائیں۔ بعض ممالک کے کنٹینرز کے لیے ہوائی راستے سے سامان منتقل کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

چمن چیمبر آف کامرس کا 10 رکنی وفد پاکستان، افغانستان سرحد کی بندش کے باعث تجارت کی معطلی اور ہزاروں افراد کی بے روزگاری کے مسئلے پر اسلام آباد، لاہور اور پشاور کے دوروں میں مصروف ہے۔

وفد کے صدر عبدالنافع ادوزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ پاکستان افغان سرحد پر حالیہ جھڑپوں اور اس کے نتیجے میں بارڈر کی مسلسل بندش نے نہ صرف تاجروں بلکہ ملکی معیشت کو بھی اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید بڑھ رہا ہے۔

عبدالنافع کے مطابق وفد نے لاہور اور پشاور میں مختلف تجارتی و صنعتی اداروں کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں جبکہ اسلام آباد میں وزیرِ صنعت رانا احسان، وفاقی وزیرِ تجارت جام کمال، وزیراعظم سیکریٹریٹ، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام سے بھی مذاکرات کیے۔

وفد نے حکام کو آگاہ کیا کہ ٹرانزٹ ٹریڈ کی بندش کے باعث ہزاروں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں جبکہ پاکستانی تاجروں کو اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

عبدالنافع  نے بتایا کہ سرحدی بندش سے پاکستانی انڈسٹری خصوصاً کیلا، کینو، مالٹا اور چاول جیسی زرعی مصنوعات کے ساتھ سیمنٹ، پلاسٹک مصنوعات اور فارماسیوٹیکل سیکٹر بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ تقریباً تین ہزار افغان اور پاکستانی تاجر پاسپورٹ پر ایک دوسرے کے ملک آئے تھے جو بارڈر بند ہونے کے باعث دونوں جانب پھنس گئے ہیں اور ان کے ویزوں کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے۔ وفد نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان تاجروں کی فوری واپسی کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔

انہوں نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ سرحدی کشیدگی کم کرنے کے لیے لچک کا مظاہرہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جنگ مسائل کا حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کیے جائیں ورنہ دونوں ممالک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔‘

دوسری جانب چمن کے قبائلی عمائدین، تاجروں اور جرگہ ممبران کے نمائندے حاجی عبدالباری ادرکزئی نے بتایا کہ ایک وفد نے گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل سے ملاقات میں سرحد پار پھنسے سینکڑوں افراد کو واپس لانے کا مطالبہ کیا۔ گورنر کو آگاہ کیا گیا کہ سرحدی کشیدگی کے باعث بارڈر کی بندش سے دونوں طرف کم از کم ہزار وں افراد مشکلات کا شکار ہیں۔

گورنر بلوچستان نے وفد کو یقین دلایا کہ تاجر برادری اور سرحدی عوام کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اور حکومت تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تجارت اور زراعت کو مضبوط بنانا معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے اور اس مسئلے کے حل کے لیے وہ اسلام آباد میں صدر اور وزیراعظم سے بات کریں گے۔

حاجی عبدالبار ادرکزئی کے مطابق چمن چیمبر آف کامرس کا وفد اسلام آباد میں وزارتِ داخلہ اور وزارتِ تجارت کے حکام سے مزید ملاقاتیں جاری رکھے ہوئے ہے۔





Source link

متعلقہ پوسٹ