اسلام آباد: ذیابیطس کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (PANAH) اور پریس کلب نے صدر پناہ میجر جنرل مسعود الرحمن کیانی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ کی سرپرستی میں نیشنل پریس کلب اسلام آبادمیں ہیلتھ میلہ اور آگاہی واک کا انعقاد کیا۔ واک کا انعقاد پناہ، ہارٹ فائل (Heartfile)،پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیٹس (PYCA) اورسنٹر فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ انیشی ایٹوز (CPDI) نے مشترکہ طور پر کیا. وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔
ماہرین صحت نے بتایا کہ پاکستان میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ سال 2011 میں مریضوں کی تعداد 63 لاکھ تھی جو 2021 میں بڑھ کر 3 کروڑ 30 لاکھ تک پہنچ گئی ہے، جبکہ مزید 10 لاکھ افراد ابتدائی درجے کی زیابیطس میں مبتلاء ہیں۔ اس تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان نے پاکستان کو ذیابطیس کے پھیلاؤ کے لحاظ سے دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل کر دیا ہے، جہاں ہر تیسرا بالغ فرد اس مرض میں مبتلا ہے۔ اس وقت پاکستان میں روزانہ تقریباً 1100 اموات ذیابطیس اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر فوری اور مؤثر پالیسی اقدامات نہ کیے گئے تو 2050 تک ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد 7 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔
آگاہی واک میں ماہرین صحت، سرکاری عہدیداران، سول سوسائٹی کے نمائندوں، نوجوانوں، میڈیا اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ ماہرین نے اس موقع پر کہا کہ غیر صحت مند خوراک ذیابطیس اور دیگر غیر متعدی امراض (NCDs) کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ شرکاء نے ایسے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ شواہد پر مبنی عوامی صحت کی پالیسیاں اپنائے، جن میں الٹرا پراسیسڈ مصنوعات (UPPs) پر ٹیکس میں اضافہ، فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز (FOPWL) کا نفاذ، اور پارشیلی ہائیڈروجنیٹڈ آئلز (PHOs) پر پابندی شامل ہیں، جو ٹرانس فیٹس کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔
پناہ کی جانب سے ایک ہیلتھ میلہ بھی لگایا گیا۔ ہیلتھ میلہ میں سینکڑوں افراد کو مفت طبی مشاورت، تشخیصی ٹیسٹ اور ادویات فراہم کی گئیں۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہر ڈاکٹروں بشمول امراضِ قلب، کینسر، امراضِ نسواں، امراضِ اطفال، جلد، نفسیات، آنکھ اور یورولوجی کے ماہرین نے خدمات انجام دیں۔ اس سرگرمی کا مقصد ذیابطیس اور دیگر غیر متعدی امراض کی بروقت تشخیص، بچاؤ، اور صحت مند طرزِ زندگی کو فروغ دینا تھا۔
ہیلتھ میلہ کے دوران نیشنل پریس کلب میں آن لائن پوڈکاسٹ مباحثے بھی منعقد کیے گئے جن میں پناہ، ہارٹ فائل، سی پی ڈی آئی اور پی وائی سی اے کے نمائندوں اور مختلف شعبہ جات کے ماہرین نے شرکت کی۔ ان مباحثوں میں مقررین نے الٹرا پراسیسڈ مصنوعات (UPPs) کے انسانی صحت پر مضر اثرات اور ذیابیطس میں ان کے کردار پر روشنی ڈالی اور ان کے استعمال میں کمی لانے کے لیے مؤثر پالیسی اقدامات پر زور دیا۔
مقررین نے کہا کہ میٹھے مشروبات پاکستان میں چینی کے استعمال کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ مائع چینی جسم کے میٹابولزم کو متاثر کرتی ہے، غیر ضروری کیلوریز میں اضافہ کرتی ہے، اور بالآخر ٹائپ 2 ذیابطیس اور دیگر مہلک بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ میٹھے مشروبات کے باقاعدہ استعمال سے ٹائپ 2 ذیابطیس کا خطرہ 30 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اس خطرے کو مؤثر مالیاتی اقدامات، جیسے ٹیکسیشن پالیسیز کے ذریعے، نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔
اپالیسی ماہرین نے فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز (FOPWLs) کے نفاذ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ واضح اور نمایاں انتباہی لیبلز عوام کو خوراک کے درست انتخاب میں مدد دیتے ہیں، تاکہ وہ زیادہ چینی، نمک اور غیر صحت مند چکنائی والے کھانوں کی شناخت کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک میں یہ پالیسی مؤثر ثابت ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں غیر صحت مند غذاؤں کے استعمال میں کمی اور فوڈ انڈسٹری میں اصلاحات دیکھی گئی ہیں۔
ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پارشیلی ہائیڈروجنیٹڈ آئلز (PHOs) پر فوری پابندی عائد کرے۔ ماہرین نے کہا کہ PHOs صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹس ا ایک بڑا ذریعہ ہیں جن کے کوئی غذائی فوائد نہیں اور یہ امراضِ قلب کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے ان چکنائیوں کے مکمل خاتمے کی سفارش کی ہے۔ پاکستان میں PHOs پر پابندی عوامی صحت کے تحفظ اور سالانہ ہزاروں جانوں کو بچانے کی سمت ایک اہم قدم ثابت ہوگی۔


