بشریٰ بی بی: روحانیت، سیاست اور طاقت کے غیر رسمی مراکز — ایک تفصیلی جائزہ

Screenshot 2025 11 15 at 11.31.35

برطانوی جریدے The Economist کی حالیہ رپورٹ نے پاکستان کی سابق خاتونِ اول بشریٰ بی بی کو ایک ایسے زاویے سے موضوعِ بحث بنایا ہے جو پاکستان کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کی کئی پرتیں کھول دیتا ہے۔ عمران خان کی اہلیہ کے گرد ہمیشہ سے ایک روحانیت، اسرار اور نجی اثر و رسوخ کا تاثر موجود رہا ہے، لیکن بین الاقوامی میڈیا کی گہری نظر نے اس تاثر کو ایک نئے تناظر میں پیش کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بشریٰ بی بی کا پس منظر، شخصیت، اور سیاسی اثرات پاکستان کے طاقت کے روایتی تصور سے خاصے مختلف ہیں، کیونکہ وہ نہ تو روایتی سیاسی خاتون ہیں اور نہ ہی عوامی جلسوں میں نظر آنے والی کوئی سرگرم مہم کار۔ اس کے باوجود ان کا کردار عمران خان کے سیاسی فیصلوں اور پارٹی ڈھانچے پر گہری چھاپ رکھتا رہا۔

بشریٰ بی بی کے بارے میں یہ پہلو ہمیشہ نمایاں رہا کہ وہ ایک روحانی خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاک پتن کی درگاہ سے جڑا ہوا مانیکا خاندان پنجاب میں عرصۂ دراز سے سماجی اور اثرو رسوخ رکھتا ہے۔ اس سلسلے نے نہ صرف ان کے ذاتی حلقے کو تشکیل دیا بلکہ عمران خان کے ساتھ ان کی شادی کے بعد ملک کی اعلیٰ سیاسی سطح تک اس اثر کا دائرہ پھیلتا محسوس ہوا۔ جریدے نے واضح کیا کہ عمران خان نے زندگی کے اہم ترین سیاسی موڑوں پر اپنی اہلیہ کی روحانی رہنمائی پر غیر معمولی انحصار کیا۔ ان کے ہاں وظائف، تعویذ، مراقبہ اور نجومی اشارات پر اعتماد کا کلچر موجود تھا، جسے وہ بشریٰ بی بی کی مشاورت سے مزید منظم انداز میں اپناتے گئے۔ یہی روحانی پہلو ان کے ناقدین کے لیے ایک مسلسل موضوع رہا، جنہوں نے عمران خان کے وزراء کی تقرری، پالیسیوں کی تبدیلی اور اچانک سیاسی فیصلوں کو ’’روحانی اشاروں‘‘ سے منسوب کیا۔

رپورٹ میں بیان کردہ ایک اہم مشاہدہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں روحانیت اور سیاست کا ملاپ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ جنوبی ایشیا کے دیہی معاشرے میں پیر، گدی نشین اور روحانی خانوادے ہمیشہ سے طاقت کے مراکز کے ساتھ جڑے رہے ہیں۔ اس پس منظر میں بشریٰ بی بی کا نمایاں اثر اس سماجی روایت سے میل کھاتا ہے، لیکن جس انداز میں وہ وزیراعظم ہاؤس کے اندر فیصلوں پر اثرانداز ہوئیں، اسے ’’غیر معمولی‘‘ قرار دیا گیا۔ محدود نجی دائرے میں رہنے کے باوجود وہ سیاسی قوت کے ایسے محور میں بدل گئیں جہاں ان کی بات کو انتہائی اہمیت دی جاتی تھی۔ کچھ رپورٹس کے مطابق مختلف سرکاری افسران کی تعیناتیوں میں بھی ان کی پسند و ناپسند کا عنصر موجود رہا، جب کہ کچھ معاملات میں ان کے قریبی افراد کو بھی سیاسی فوائد حاصل ہوتے نظر آئے۔

موجودہ قانونی صورتِ حال بھی اس رپورٹ کا اہم حصہ ہے۔ جریدے کے مطابق عمران خان کے خلاف قانونی کارروائیوں اور سیاسی دباؤ کا براہِ راست اثر بشریٰ بی بی کی زندگی پر بھی پڑا۔ وہ مختلف مقدمات میں نامزد ہوئیں، عدالتوں کا سامنا کیا، اور بالآخر اپنے شوہر کے ساتھ قید کی کیفیت تک پہنچ گئیں۔ جریدے نے اس بات کا تجزیہ کیا کہ پاکستانی ریاست جب کسی سیاسی قوت کو کمزور کرنے پر آمادہ ہوتی ہے تو اس کے ساتھ جڑا ہر فرد ریاستی عمل کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس تناظر میں بشریٰ بی بی کا کردار سیاسی کے بجائے علامتی زیادہ بنتا جا رہا ہے—خصوصاً ایسے وقت میں جب عمران خان کے گرد بیانیہ ’’ناانصافی‘‘ اور ’’سیاسی انتقام‘‘ کے موضوعات سے تشکیل پا رہا ہے۔

رپورٹ میں بعض حلقوں کے الزامات کا تذکرہ بھی کیا گیا، جن کے مطابق عمران خان کی حکومت کے دوران پنکی پیرنی کے طور پر ان کا اثرو رسوخ غیر معمولی حد تک بڑھ گیا تھا۔ کچھ افراد نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنے خاندان یا قریبی لوگوں کے ذریعے فوائد حاصل کیے، جب کہ بعض نے انہیں فیصلہ سازی کے ایسے عمل کا حصہ بتایا جو کسی منتخب یا سرکاری حیثیت کے بغیر ہوا کرتا تھا۔ تاہم اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے رکھی گئی کہ ان الزامات کی اکثر شکلیں قیاس آرائی اور سماجی سنسنیشن کا حصہ ہیں، جنہیں ثابت کرنا آسان نہیں۔

رپورٹ کا سب سے برجستہ پہلو یہ تھا کہ عمران خان اپنی ذاتی زندگی میں بے چینی اور عدم اطمینان کا اکثر اظہار کرتے رہے ہیں، اور ایسے وقت میں بشریٰ بی بی ان کے لیے ایک روحانی سہارا اور ذہنی سکون کا ذریعہ ثابت ہوئیں۔ یہ تعلق محض ازدواجی نہیں بلکہ نفسیاتی اور روحانی سطح پر گہرے اثر کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ عمران خان کے اہم سیاسی فیصلوں میں یہ پہلو واضح محسوس ہوا، اور جریدے نے اسے سیاسی تجزیے کا ایک ناگزیر حصہ قرار دیا۔

غیر جانبدارانہ تجزیے کے طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ بشریٰ بی بی کے کردار میں حقیقت اور تاثر کی حدیں آپس میں گڈمڈ ہیں۔ پاکستان کے سیاسی کلچر میں ذاتی اثر و رسوخ، خاندانی تعلقات، روحانیت اور طاقت ہمیشہ ایک ساتھ سفر کرتے آئے ہیں، اس لیے بشریٰ بی بی کا کردار نہ مکمل طور پر غیر معمولی ہے اور نہ ہی مکمل طور پر روزمرہ سیاسی روایت سے الگ۔ لیکن ان کے اثرات کا جو زاویہ بین الاقوامی میڈیا میں ابھرا ہے، وہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ طاقت کے غیر رسمی مراکز کبھی کبھی رسمی فیصلہ سازی سے زیادہ مضبوط ہو سکتے ہیں۔ اصل حقیقت شاید اس درمیانی جگہ میں چھپی ہے جہاں ایک روحانی پس منظر رکھنے والی خاتون، ایک کرشماتی مگر غیر مستقل مزاج لیڈر، اور پاکستان کے پیچیدہ طاقت کے ڈھانچے آپس میں جڑ کر ایک ایسا بیانیہ بناتے ہیں جو آج بھی بحث اور تجزیے کا محور ہے۔

متعلقہ پوسٹ