ملی یکجہتی کونسل پاکستان جس کے صدر ابو الخیر محمد زبیر ہیں دراصل علماے پاکستان کا وہ کامن روم ہے جہاں آپ کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے والے اور ایک دوسرے کے خلاف تقاریر کرنے والے بھی کھیل میں ایک ساتھ شریک نظر ایں گے ۔ جب بھی حکومت کو کسی مذہبی معاملے پر دھمکانا مقصود ہو تو یہ علماے ناسور جس دستر خوان پر جمع ہوتے ہیں اس کا نام ملی یکجہتی کونسل ہے ۔ جہاں آپ کو بریلوی نکتہ نظر کے علاوہ جمعیت علماے اسلام کے فضل الرحمن ،جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان ، شعیہ علماء کونسل کے ساجد نقوی اور جمعیت اہلحدیث کی مرکزی قیادت ہم نوالہ ،ہم پیالہ ملیں گے ۔ ابھی دو روز پہلے اسلام آباد میں جو کٹھ ہوا اس کا جو مشترکہ اعلانیہ جاری ہوا ہے اس میں فساد کی بو سونگھی جا سکتی ہے ۔ گویا دین کے نام پر
ایک نئے فساد کے برپا کئے جانے کی تیاری کی جا رہی ہے ۔ مشترکہ اعلانیہ تو بڑا طویل ہے لیکن ہم اس وقت صرف اس حصہ کو حکومت کے نوٹس میں لانا ضروری خیال کرتے ہیں جس میں بلا ضرورت مذہب کی آڑ لی گئی ہے ۔ مثلا” اگر شعائر اسلام اور آہین کے خلاف اقدامات واپس نہ لئے گئے تو ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کی جاے گی جس کے لئے تمام دینی جماعتوں پر مشتمل ایکشن کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے ۔ قومی مشاورت اور قومی قائدین نے حکومت کی طرف سے قران وسنت اور آئئین سے
متصادم قانون سازی کی مذمت کی اور کہا کہ اسلامی قوانین کو غیر موثر کرنے کا بھیانک کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ اب ان سے کون پوچھے کہ ماضی قریب یا حال میں حکومت کی طرف سے کونسا قدم شعائر اسلام کے خلاف اٹھایا گیا ہے جس کی واپسی ملی یکجہتی کونسل چاہتی ہے ۔ پھر مثال دئیے بغیر یہ کہنا کہ اسلامی قوانین کو غیر موثر کرنے کا بھیانک کھیل کھیلا جا رہا ہے
دراصل حکومت کو بے دست و پا کرنے کی ابتدائی کوشش ہے ۔ حکومت جو پہلے ہی اپنی زندگی کے دن راولپنڈی سے ملنے والی آکسیجن پر گزار رہی ہے وہ کسی بھی ایکشن کمیٹی کا وار سہنے کی پوزیشن میں نہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان جو آل راونڈ سیاست
کے کھلاڑی ہیں ابھی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حمایت سے صوبہ پختون خواہ میں سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان نے ملی یکجہتی کونسل کے اسی اجلاس میں بتایا ہے کہ آئین میں 26 ویں ترمیم کے وقت حکومت کو 35 نکات سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا ۔ اور ابھی شکوہ باقی ہے جو ایکشن کمیٹی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ۔ آج کے دور میں مولانا دوغلے پن کی بہترین مثال ہیں ۔ جو حکومت کو بھی راضی رکھتے ہیں اور ساتھ حزب اختلاف کی کشتی میں بھی سوار رہتے ہیں ۔ مولانا کا یہ بیان بھی قابل توجہ ہے کہ علماء پاکستان میں مسلح جدوجہد کو غیر شرعی اور حرام قرار دے چکے ہیں ۔ کیا مسلح جدوجہد صرف وہ کہلاے گی جو فوج اور سیکورٹی اداروں کے خلاف ہو ۔ جتھے اکٹھے کر کے لوگوں کو عبادت سے روکنا ، میناروں اور محرابوں کو گرانا ، قبروں کی بے حرمتی کرنا کیا یہ اقدام شرعی ہیں ۔ اس وقت بطور عالم دین آپ کی زبان پر کیوں ترلے پڑے رہ جاتے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں 30 جولائی کے دن جو کاروائی ہوئی اور متعدد اسلام پسند تنگ نظر مقررین نے چاردیواری کے اندر عبادت کی آزادی سے متعلق عدلیہ کے بعض ریمارکس کو قابل گرفت خیال کرتے ہوے مذہبی معاملات میں عدلیہ کی مداخلت کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کی ہے اور وزیر قانون کی طرف سے فوری فیصلہ کی بجاے معاملہ کمیٹی کے سپرد کرنے کے عمل کو علماء نے پسند نہی کیا ۔ اب کمیٹی اراکین پر دباؤ بڑھانے اور ممبران اسمبلی کو ہم نوا بنوانے کے لئے ایکشن کمیٹی اور ملک گیر احتجاج کی دھمکی دی گئی ہے ۔ دنیا میں مذہبی آزادی کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ مسلم ممالک بھی اپنے ملک میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل آزادی کا حق دے رہے ہیں ،۔ ابوظہبی میں حکومت کی طرف سے تعمیر کیا جانے والا مندر
دنیا بھر سے داد تحسین حاصل کر رہا ہے ۔ ایک پاکستان ہے جہاں عبادت گاہوں کو سیل کرنے کی روایت کے بعد بھی کلیجہ کو ٹھنڈ نہی پڑی اور اب چاردیواری کے اندر عبادت کا حق چھیننے کے لئے قانون سازی کی بات کی جا رہی ہے ۔ ملی یکجہتی کونسل
کا حالیہ اجلاس اسی دباؤ کی ایک کڑی ہے ۔ ورنہ جو باتیں مشترکہ اعلانیہ کا حصہ بنیں وہ پہلے سے ملک میں رائج ہیں ۔ جس ملک میں
تین ہزار آبادی کے گاؤں میں پانچ مساجد ہوں اس ملک میں شعائر اسلام ہر طرح محفوظ ہیں۔ ۔ حکومت کو ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس کا نوٹس لینا چائیے اور آئین پاکستان میں کسی بھی مذہبی تبدیلی کی بجاے آئین کو آزاد لبرل اور سیکولر بنانے کا عمل شروع کرنا چائیے ۔