کابل میں سہ فریقی مذاکرات کی وجوہات
افغانستان میں جو پودا طالبان کی صورت میں پاکستان نے لگایا تھا وہ باغ کی صورت اختیار کرنے کے بعد اب دنیا کو آنکھیں دکھانے کی پوزیشن اختیار کر چکا ہے ۔ وہ قوم جس کو امریکن اپنے زیر بار نہ لا سکے انہوں نے کسی دوسری قوم کو کیا گرداننا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنی سر توڑ کوشش کے باوجود افغانستان میں قائم طالبان حکومت سے اپنے تعلقات کو پائیدار بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔ اسلامی برادر ملک کا ڈھنڈورا پیٹنےوالے پاکستان کے مذہبی طبقات طالبان کی ان کاروائیوں پر آنکھیں بند کئے ہوۓ ہیں جن کی وجہ سے پاکستان سیکیورٹی کے مسائل سے دوچار ہے اور ہر روز پاکستان کے سیکورٹی اہل کار جام شہادت نوش کر رہے ہیں ۔ اسامہ بن لادن کی پاکستان سے گرفتاری کے بعد اگر ہم دنیا کے لئے قابل اعتماد نہیں رہے تو یہ تمغہ بھی ہم نے طالبان کی محبت میں اپنے گلے میں ڈالا ۔ لیکن آج وہی لوگ جن کی خاطر ہم نے دنیا کو ناراض کیا ہمیں قابل اعتماد نہی سمجھتے ۔ اپریل سے اگست تک تین بار پاکستانی وزیر خارجہ افغانستان جا چکے ہیں اور وہاں جانے کا ایک ہی مقصد ہے کہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے جن جنگجوؤں نے پناہ لے رکھی ہے ان کو پاکستان کے حوالے کیا جاۓتاکہ صوبہ کے پی کے میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کو روکا جا سکے ۔ ابھی تک تو حکومت پاکستان اپنے موقف پر طالبان کو قائل نہیں کر سکی ۔ وزیر خارجہ اور وزارت خارجہ پاکستان کے جتنے وفود بھی افغانستان گئے ہیں وہ مطالبات اور گلے شکووں کی ایک لمبی فہرست لے کر واپس لوٹتے رہے ہیں ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دو اسلامی بردار ہمسایہ ملکوں کے درمیان معاملات کو سلجھانے کے لئے ایک تیسرے غیر مسلم ملک سے مدد لی جاۓ۔یا کوئی دوسرا غیر مسلم فریق ضامن بن کر یہ بوجھ اٹھاۓ
چین اور پاکستان کے درمیان 596 کلو میٹر لمبی سرحد ہے جو قراقرم کے پہاڑوں سے گزرتی ہے ۔ افغانستان اور چین کے درمیان 92 کلو میٹر سرحد ہے جو پاکستان کو گلگت ،بلتستان کے علاقہ سے ملاتی ہے ۔ چین سی پیک کے نام پر بہت بڑی سرمایہ کاری پاکستان میں کر چکا ہے اور افغانستان میں بھی سرمایہ کاری پر آمادہ ہے
اس علاقہ میں سیکورٹی کے بڑھتے ہوۓ مسائل کی وجہ سے سی پیک منصوبہ بر وقت مکمل نہی ہو سکا اور نہ ہی مکمل ہونے کا امکان نظر آر ہا ہے ۔ جب بھی کام شروع ہوتا ہے توچینی انجنیرز حملوں کی زد میں آ جاتے ہیں ۔ چین نے جن شرائط پر سی پیک میں سرمایہ لگایا تھا اس کی واپسی کا زمانہ بھی شروع ہو چکا اور ابھی تک ایک قسط بھی چین کو واپس نہیں مل سکی ۔ بظاہر ڈوبتی رقم کو بچانے کے لئے اس کی واپسی کی میعاد میں توسیع
پر آمادہ ہو جانا چین کی مجبوری ہے ۔ اس کے حل اور افغانستان ،پاکستان کے درمیان اعتماد کو بحال کرنے کے لئے چین نے سہ فریقی مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ بدھ کے روز کابل میں ہونے والے سہ فریقی
اجلاس سے امن کی نئی امید پیدا ہوئی ہے ۔ تو یہ افسوس کی بات کہ طالبان اور حکومت پاکستان دونوں مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں لیکن ،ایک دوسرے کے لئے قابل اعتماد نہیں ہیں ۔ ایک غیر مسلم طاقت
ان کے درمیان ضامن کا کردار ادا کر رہی ہے ۔ اگر پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہو جائیں اور کے پی میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی قابو میں آ جاۓتو دل ناتواں اس سہ فریقی اتحاد کو بھی قبول کرنے پر تیار ہو جاۓ گا ۔ لیکن مسلمان حکومتوں کو سوچنا چائیے کہ ایک طرف غزہ میں لاکھوں مسلمان اغیار کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ عراق اور شام میں تباہی و بربادی کے بعد بننے والی حکومتیں غیر مسلم طاقتوں کے رحم و کرم پر ہیں ۔ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے تیسرے فریق کے مرہون منت ہیں ۔ دنیاے عالمگیر میں اسلام پر سوال اٹھانے کا سامان مسلمان خود پیدا کر رہے ہیں ۔ یہ اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اسلام دشمنی ہے ۔ مسلمانوں کو اپنے رویوں پر غور کرنا چائیے ۔
