پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اقلیتوں کے حقوق کا کمیشن بنانے کا بل منظور، ایوان میں شدید ہنگامہ

Screenshot 2025 12 02 at 09.49.25

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس آج پھر سیاسی کشیدگی اور بحث و تقابل کا مرکز بنا رہا جہاں اقلیتوں کے حقوق کا کمیشن قائم کرنے کا بل اکثریتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اعلان کیا کہ بل کے حق میں 160 جبکہ مخالفت میں 79 ووٹ آئے۔

بل منظور ہونے کے ساتھ ہی اپوزیشن ارکان اسپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہوگئے اور حکومت مخالف نعرے لگاتے رہے، جس سے ایوان میں شور شرابا بڑھ گیا۔

قانون و انصاف کے متعلق خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ قانون اقلیتوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لیے لایا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ “قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں کہلاتے، اور اس کا تحفظ آئین کے آرٹیکل 25 میں نہیں دیا گیا”۔ انہوں نے کہا کہ یہ محض اقلیتوں کے حقوق کا بل ہے اور “اس کا قیدی نمبر 804 سے کوئی تعلق نہیں۔”

اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے 2014 میں حکومت کو اقلیتی کمیشن بنانے کی ہدایت کی تھی، لہٰذا یہ بل اسی تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے اس بل کے لیے اہم ترامیم بھی جمع کروائیں۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ “پارلیمنٹ اور جمہوریت کے خلاف ہر سازش ناکام بنائیں گے۔”

سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ خواتین اور اقلیتیں ہمیشہ ان کی سیاسی ترجیحات میں شامل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قومی پرچم میں سفید رنگ اقلیتوں کے تحفظ کی علامت ہے، جسے ہمارے قائدین نے بڑی سوچ کے ساتھ شامل کیا تھا۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس مسئلے پر پارٹیوں کا اختلاف نہیں، مگر اس بات پر سوالات ضرور ہیں کہ حکومت ایسے قانون کی طرف کیوں بڑھ رہی ہے جس سے دوسروں کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے۔

جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ان کی جماعت اقلیتوں کے حقوق کے خلاف نہیں لیکن اس مجوزہ قانون کے سیکشن 35 کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

مجلس وحدتِ مسلمین کے رہنما علامہ ناصر عباس نے کہا کہ ملک میں انسانی حقوق کی مجموعی صورتحال اچھی نہیں، اور ایسے اہم اجلاس میں غیرمعمولی قانون سازی کی جا رہی ہے جبکہ ایوان میں قائدِ حزبِ اختلاف تک موجود نہیں۔

پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے یاد دلایا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا قانون ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاس ہوا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ “کوئی ایسا دروازہ نہ کھولیں جس سے ناموسِ رسالت پر حرف آئے، ہم ایسی قانون سازی کی اجازت نہیں دیں گے۔”

متعلقہ پوسٹ