منگل کی دوپہر ، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پیش ہونے والے قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل 2025 اپوزیشن جماعتوں کی شدید نعرے بازی کے دوران حکومت نے 160 اراکین کے ووٹوں سے منظور کر لیا جبکہ 79 اراکین نے بل کی مخالفت کی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے جون 2014 میں پشاور میں ایک گرجا گھر پر ہونے والے خودکش حملے، چترال میں کیلاش اور اسماعیلی فرقے کو دھمکیاں ملنے کے واقعات پر ازخود نوٹس کیس میں تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا جو اب عدالتی حوالے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اقلیتوں کے حقوق کی نیشنل کونسل کے قیام کا حکم دیا گیا تھا۔
اس کونسل کا بنیادی فریضہ یہ ہو گا کہ وہ آئین اور قانون کے تحت اقلیتوں کو دیے گئے حقوق اور تحفظات کے عملی نفاذ کی نگرانی کرے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے 11 سال بعد حکومت نے اقلیتوں کے حقوق پر بل منظور کیا۔
منگل کے روز مشترکہ اجلاس شروع ہوا تو اجلاس شروع ہوتے ہی اپوزیشن اراکین نے نعرے بازی شروع کر دی۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی کمیشن برائے حقوق اقلیت بل کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ غیر مسلموں کے لیے کمیشن ہے۔ سپریم کورٹ نے 2014 میں فیصلہ دیا کہ کمیشن بنایا جائے اس پر سیاست نہ کی جائے۔ قرآن و سنت کے منافی کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ جے یو آئی کو بھی اس حوالہ سے یقین دہانی کروائی ہے۔ اس کے باوجود کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے اس کی شق 35 کو حذف کر دیا جائے۔ اس پہ بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ یہ ہمارے خمیر میں نہیں کہ کسی بھی صورت ایسی قانون سازی ہو جس سے قادیانی فتنے کو ہوا ملے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’پارلیمنٹ ایک ایسا فورم ہے جہاں ہم مشاورت سے معاملے طے کرتے ہیں۔ کوشش کی جائے کہ آئین متنازع نہ ہو۔‘
جے یو آئی ایف کے رکن اسمبلی کامران مرتضی نے بل پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم کبھی یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ ہم اقلیتوں کے خلاف ہیں۔ ہم اقلیتوں کو اپنے برابر کا شہری سمجھتے ہیں۔ اس قانون میں دو چیزیں بہت قابل اعتراض ہیں۔ یہ قانون منظور ہو گیا تو قادیانیوں کے لیے بنایا گیا پہلا قانون غیر موثر ہو جائے گا۔ اس قانون میں سے یہ شق نکالنی ضروری ہے۔‘
اس پر وزیر قانون نے کہا کہ ’آئین کہتا ہے قادیانی غیر مسلم ہیں۔ ہم سیکشن 35 کو ہٹا دیتے ہیں۔ 11 سال سے یہ زیر التوا ہے اس کو پاس کیا جائے۔‘
|
قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل کے مندرجات |
|
قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق 16 ارکان پر مشتمل ہو گا۔ چاروں صوبوں سے دو دو اقلیتی ارکان کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ چاروں صوبوں سے اقلیتی ارکان کی نامزدگی صوبائی حکومت کرے گی۔ کمیشن کا ایک رکن وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ہو گا۔ اسلام آباد سے اقلیتی رکن کی نامزدگی چیف کمشنر اسلام آباد کی صوابدید ہو گا۔ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس ، نیشنل کمیشن فار سٹیٹس آف وومن، حقوق اطفال کمیشن ایک ایک رکن اقلیتی کمیشن کے رکن ہوں گے۔ تینوں ارکان کی نامزدگی متعلقہ کمیشن کے چیئرمین کریں گے۔ وزارت قانون ، وزارت مذہبی امور، وزارت داخلہ اور وزارت انسانی حقوق کے گریڈ 21 کے افسران بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے۔ کمیشن کے ارکان اور چیئرمین کے لیے کم سے کم 35 سال عمر کی حد مقرر کی گئی ہے، جب کہ کمیشن کا چیئرمین انسانی حقوق کے تجربے کا حامل فرد ہو گا۔ |
راجہ ناصر عباس نے کہا کہ ’اس وقت پاکستان میں بڑا مسئلہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ہے۔ لوگوں کوحقوق نہیں مل رہے۔ مشترکہ اجلاس ہے مگر کوئی اپوزیشن لیڈر نہیں۔ اگر چاہتے ہیں اپوزیشن کردار ادا کریں تو ان کو حقوق دیں۔ تمام قانون سازی عجلت اور جلد بازی میں ہو رہی ہے۔‘
بل کی منظوری کے وقت ایوان میں اپوزیشن جماعتوں نے ناموس رسالت زندہ بعد ،نعرے تکبیراللہ اکبرکے نعرے لگائے۔ جے یو آئی نے بل میں موجود شق 35 کی مخالف کی اور خذف کرنے کی تحریک پیش کی جو کثرت رائے سے منظور ہوئی جس کے بعد وزیر قانون نے شق 35 واپس لے لی۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر عبد القادر اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ایمل ولی خان نے بھی بل کی مخالفت کرتے ہوئے ر ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ اپوزیشن کے احتجاج پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’یہ اقلیتوں کے حقوق کا بل ہے قیدی 804 کو کچھ نہیں ہو گا۔ یہ انتہائی اہم قانون ہے۔‘

