دہلی میں خواتین کے تحفظ کے خدشات کے درمیان دہلی خواتین کمیشن ڈیڑھ سال سے بند پڑا ہے۔کمیشن کی آخری چیئرپرسن سواتی مالیوال تھیں، جنہوں نے جنوری 2024 میں راجیہ سبھا میں جانے کے لیے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس سال فروری میں بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نے خواتین کے تحفظ کے بارے میں تمام طرح کے دعوے کیے تھے، لیکن آج تک کمیشن کے دفتر پر لگا تالہ کھل نہیں سکا ۔
مرکزی اور دہلی حکومتوں کے خواتین کے تحفظ سے متعلق وعدوں کے باوجود دہلی خواتین کمیشن گزشتہ ڈیڑھ سال سے بند پڑاہے۔ (تمام تصویریں: سونیا یادو/ دی وائر )
نئی دہلی: قومی راجدھانی کے آئی ٹی او میں وکاس بھون کی دوسری منزل، جو کبھی دہلی خواتین کمیشن کے دفتر کا پتہ ہوا کرتا تھا، تقریباً ڈیڑھ سال سے بند پڑا ہے۔ کچھ خاک آلود کرسیاں ضرور ہیں، لیکن اب ان پر بیٹھنےکوئی نہیں آتا، کیوں کہ نیچے ہی بتا دیا جاتا ہے،’دہلی خواتین کمیشن کا دفتر بند ہے۔’
تاہم، دہلی خواتین کمیشن کی سرکاری ویب سائٹ پر اب بھی اس کے دفتر کا پتہ یہی درج ہے، اور چیئرپرسن، ممبر سکریٹری، اور دیگر کے عہدے خالی بتائے گئے ہیں۔ کمیشن کی آخری مقرر کردہ چیئرپرسن سواتی مالیوال تھیں، جنہوں نے جنوری 2024 میں اپنی راجیہ سبھا نامزدگی کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
خبروں کے مطابق ، جنوری 2024 سے کمیشن میں کوئی چیئرپرسن نہیں ہے اور جولائی 2024 سے کوئی ممبر نہیں ہے۔ اس سے قبل مئی 2024 میں محکمہ خواتین اور بچوں کی ترقی نے کمیشن میں کام کرنے والے 223 کنٹریکٹ ملازمین کو ‘غیر مناسب’ تقرریوں کا حوالہ دیتے ہوئے ہٹانے کا حکم دیا تھا۔
دہلی میں اس سال فروری میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے اور 20 فروری کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ریکھا گپتا نے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا تھا۔ انہوں نے الیکشن سے پہلے اور بعد میں خواتین کے حوالے سے بے شمار دعوے اور وعدے کیے۔ فی الحال وزیر اعلیٰ ہی خواتین اور بچوں کی ترقی کے محکمے کی انچارج ہیں۔
مئی کے مہینے میں سی ایم ریکھا گپتا نے بھی دہلی خواتین کمیشن کو جلد فعال کرنے کی بات کہی تھی، لیکن تقریباً آٹھ ماہ گزرنے کے بعد بھی یہ معاملہ ٹھنڈے بستے میں ہی پڑا ہواہے۔
دہلی خواتین کمیشن کی سرکاری ویب سائٹ، جس میں کمیشن کا پتہ درج ہے۔
حال ہی میں، ایک کیس کی سماعت کے دوران، سپریم کورٹ نے کمیشن کے غیر فعال ہونے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کمیشن کی بے عملی پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا تھا کہ اگر کمیشن بند ہو گیا ہے تو اب بحران کے وقت خواتین کہاں جائیں گی۔
غور طلب ہے کہ دہلی خواتین کمیشن کا قیام 1994 میں دہلی حکومت نے آئین اور دیگر قوانین کے تحت خواتین کو ملنے والے تحفظات سے متعلق تمام معاملات کی تحقیقات کے لیے کیا تھا۔ یہ خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور استحصال سے لے کر مشاورت، دفاع اور قانونی امداد تک کے تمام معاملات کو ہینڈل کرتا ہے۔ کمیشن کو سول کورٹ کی طرح کام کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
کمیشن نے خواتین کی فوری مدد کے لیے 181 نامی ہیلپ لائن بھی چلائی، جسے اب دہلی حکومت کے خواتین اور بچوں کی ترقی کے محکمے کے ساتھ مربوط کر دیا گیا ہے۔ یہ نمبر اب بھی فعال ہے، لیکن اس پر کال کرنے سے فوری مدد یا معلومات نہیں ملے گی۔
دی وائر نے اس نمبر پر فون کیا تھا، لیکن فون کا جواب دینے والے کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ دہلی خواتین کمیشن کا دفتر کہاں واقع ہے یا اس کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات کیا ہیں۔
خواتین کمیشن کے دفتر کی گیلری۔
کمیشن خواتین کو فوری مدد فراہم کرواتا تھا
کمیشن کے ایک سابق رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی وائر کو بتایا کہ کمیشن کو 181 پر لاکھوں کی تعداد میں کال موصول ہوتی تھیں اور اس کی بنیاد پر سالانہ ہزاروں مقدمات درج ہوتے تھے۔ ان میں گھریلو تشدد، ریپ، لڑکیوں اور خواتین کی اسمگلنگ، استحصال اور ہراساں کرنے کے معاملات شامل تھے، جن میں تمام خواتین کو فوری مدد کی ضرورت ہوتی تھی۔ کمیشن کے فیلڈ اسٹاف نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے دن رات کام کرتے تھے۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ کمیشن نے خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کے ساتھ مل کر، ریپ، تیزاب کے حملوں اور خواجہ سراؤں کے کیسز کے لیے کرائسس سیل اور ہیلپ لائنز سمیت مختلف خدمات قائم کی تھیں، جہاں 24 گھنٹے مدد دستیاب تھی۔ بہت سے معاملات میں کمیشن نے خود افراد یا تنظیموں کو طلب کرتاتھا، تھانوں میں ایف آئی آر درج کروائی جاتی تھی، اور نوٹس جاری کرتے ہوئے جلد کارروائی کے لیے دباؤ بنایا جاتا تھا ۔ خواتین کی کاؤنسلنگ ہوتی تھی اور انہیں مناسب قانونی مدد فراہم کی جاتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا،’اب جب کہ کمیشن ہی بند ہو گیا ہے، تو خواتین مصیبت میں کہاں جائیں گی؟ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دہلی خواتین کے خلاف تشدد اور جرائم کے حوالے سے ملک کی سرفہرست ریاستوں میں شامل ہے، ایسی صورتحال میں اس کمیشن کا بند ہونا خواتین کے لیے انصاف کے راستہ کوبند کرنے جیساہے۔ کیونکہ خواتین بغیر کسی مدد کے پولیس اور عدالتوں سے رجوع کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ ان کے معاملے سالوں تک لٹکے رہتے ہیں اور ان کا استحصال ہوتا ہے۔ایسے میں کمیشن ان کے لیے ایک سپورٹ سسٹم تھا، جو اب ان سے چھین لیا گیا ہے۔’
خواتین کمیشن کا ویران دفتر جہاں ہر دروازے پر تالے نظر آرہے ہیں۔
دہلی میں خواتین کے خلاف جرائم
قابل ذکر ہے کہ این سی آر بی کے حالیہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2023 میں خواتین کے خلاف جرائم کے تقریباً 4.5 لاکھ کیس درج کیے گئے تھے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دہلی مسلسل تیسرے سال خواتین کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ شہر رہا ۔ اس عرصے کے دوران،دہلی میں ریپ کے 1,088 معاملے درج کیے گئے، جو ہندوستان کے 19 میٹروپولیٹن شہروں میں سب سے زیادہ ہیں۔ دوسرے میٹرو شہروں کے مقابلے دہلی میں جہیز کی وجہ سے سب سے قتل کے سب سے زیادہ 114 معاملے درج کیے گئے۔
سال 2023میں، دارالحکومت میں خواتین کے اغوا کے 3,952 واقعات رپورٹ ہوئے، جو ملک میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ دہلی میں تیزاب کے سب سے زیادہ حملے بھی ہوئے، جہاں اس سال چھ ایسے واقعات ریکارڈ کیے گئے۔
اس کڑی میں، دہلی میں شوہر کے ظلم کے سب سے زیادہ 4,219معاملے سامنے آئے اور 1,791 حملوں کے واقعات رپورٹ ہوئے جن کا مقصد خواتین کی عزت کو مجروح کرنا تھا۔ خواتین کے ساتھ ساتھ، لڑکیاں بھی غیر محفوظ رہیں، جہاں دہلی میں جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ(پاکسو) ایکٹ کے تحت ریپ کے سب سے زیادہ واقعات 1,048 رپورٹ ہوئے۔
خواتین کے خلاف جرائم میں کوئی کمی نہیں آئی، لیکن ان کے لیے آواز اٹھانے والا کمیشن بھی خاموش پڑاہے۔
کانگریس خواتین ونگ کی صدر الکا لامبا کہتی ہیں،’ایک طرف دہلی میں خواتین کے خلاف جرائم بڑھ رہے ہیں، وہیں دوسری طرف ان کے مقدمات کی سماعت کے لیے بنائے گئے کمیشن کے دفتر کو تالے لگے ہوئے ہیں، یہ انتہائی تشویشناک بات ہے، خاص طور پر دارالحکومت کے لیے، جہاں ہمارے پاس ایک خاتون وزیر اعلیٰ ہیں، اور نئی حکومت کو بنے ہوئے تقریباً 10 ماہ ہو چکے ہیں، لیکن ابھی تک خواتین کمیشن کا معاملہ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔’
وکاس بھون میں خواتین کمیشن کے دفتر کی طرف جانے والی لفٹ بند پڑی ہے۔
‘خواتین کمیشن نئی حکومت کی ترجیحات میں کہیں نہیں‘
آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن (ایڈوا) کی قومی نائب صدر اور سابق ایم پی سبھاشنی علی نے کہا کہ خواتین کمیشن کی غیر فعالیت خواتین کو انصاف سے محروم کرنے جیسا ہے۔ یہ خواتین مخالف کام ہے، اور بی جے پی سب سے زیادہ خواتین مخالف پارٹی ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں،’کمیشن نے سواتی مالیوال کے دور میں بہت فعال طریقے سے کام کیا، کووڈ کے دوران بھی خواتین اور لڑکیوں کی مدد کی گئی۔ اس کے بعد عام آدمی پارٹی (عآپ) حکومت کے کئی رہنماؤں بشمول وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کو جیل بھیج دیا گیا۔ شاید اسی وجہ سے تقرری کا عمل لٹک گیا ۔ لیکن جب نئی حکومت آئی، تو اس کی ترجیحات میں خواتین کمیشن کہیں نظر نہیں آیا۔ پہلے ان لوگوں نے وہاں کام کرنے والوں کو کام سے روکر یا اور پھر کوئی متبادل انتظام کیے بغیر دفتر کو ہی بند کردیا۔ یہ انتہائی تشویشناک ہے کہ خواتین کے لیے قائم کمیشن کو اس طرح سے تالا لگا دیا گیا ہے۔
سبھاشنی خواتین کمیشن کی اہمیت پر زور دیتی ہیں اور کہتی ہیں…
جب قومی کمیشن برائے خواتین کے قیام کی قرارداد منظور ہوئی تو میں پارلیامنٹ میں تھی۔ ہم نے واضح طور پر کہا تھاکہ اسے سیاسی حامیوں کا اڈہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں ایسے لوگوں کی تقرری ہونی چاہیے جو خواتین کی تحریک میں شامل ہو، خواتین کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہوں، یا ان سے تعلق ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ رفتہ رفتہ اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں سے وابستہ خواتین کو کمیشن بطور تحفہ دیا گیا اور اس کے بہت منفی نتائج برآمد ہوئے۔ کمیشن نے انتہائی جانبدارانہ انداز میں کام کیا۔
اپوزیشن کے معاملے میں حد سے زیادہ سرگرمی اور حکمراں جماعت کی جانب سے ملزمان کے خلاف مقدمات میں بے عملی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں: چنمیانند، ہاتھرس، یا دیگر بڑے معاملات، جن میں خواتین پہلوان کے معاملے شامل ہیں۔ اتر پردیش میں خاص طور پر دلت اور اقلیتی خواتین کے خلاف واقعات روزانہ رونما ہو رہے ہیں، پھر بھی کمیشن پوری طرح سے غافل دکھائی دیتا ہے۔
راجدھانی میں خاتون وزیر اعلیٰ کے بارے میں سبھاشنی کا کہنا ہے کہ دہلی میں خاتون وزیر اعلیٰ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ خواتین کی حامی ہیں۔ اگر کوئی عورت عورت مخالف پارٹی میں ہے تو وہ بھی عورت مخالف ہی ہیں۔ اور اس طرح، خواتین کے لیے انصاف کے حصول کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس لیے انصاف کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
وکاس بھون کمپلیکس کا گیٹ نمبر دو، جہاں دہلی کمیشن کا دفتر واقع ہے۔
‘سیاست سے اوپر اٹھ کر دہلی کے وزیر اعلی کو کمیشن کو فوراًکھول دینا چاہیے۔’
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خواتین کمیشن پہلے بھی کئی بار سیاسی مسائل، تقرریوں اور کنٹریکٹ ملازمین کی اچانک برطرفی کی وجہ سے خبروں میں رہا ہے۔ تاہم، یہ پہلا موقع ہے جب کمیشن مکمل طور پر بند ہونے کی وجہ سے خبروں میں ہے۔
الکا لامبا نے کمیشن کو سیاست سے اوپر رکھنے کی بات کہی اور بتایا کہ اگر دہلی کی خاتون وزیر اعلیٰ واقعی حساس اور خواتین دوست ہیں تو انہیں کوئی وقت ضائع کیے بغیر سیاست سے اوپر اٹھ کر کمیشن کے دفتر پر لگے تالے فوری طور پر کھولنا چاہیے۔
اس معاملے کو انتہائی سنگین اور تشویشناک قرار دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ہندوستان اور بیرون ملک سے خواتین تعلیم اور کام کرنے کے لیے دہلی آتی ہیں۔ ایسے میں کمیشن ان کا پہلا سہارا ہوتاہے، جہاں وہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتی ہیں۔ لیکن جب کمیشن ہی بند ہے تو وہ کہاں جائیں؟
وہ کہتی ہیں،’ان دنوں سیاست اس قدر حاوی ہے کہ خواتین کے مسائل پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔ بہت سی ریاستوں میں ہم اب بھی خواتین کمیشن میں تقرریوں کے لیے جدوجہد کرنا پڑ رہا ہے۔ میں جس ریاست میں بھی جاتی ہوں، سب سے پہلے یہی دیکھتی ہوں کہ خواتین کمیشن کے عہدوں پر لوگ تعینات ہیں یا نہیں۔ اگر ہیں، تو کیا کمیشن ان کے تحفظات کو فعال طور پر سن رہا ہے؟ کام ہو رہا ہے یا نہیں؟’
الکا نے خواتین کے قومی کمیشن پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنا مقصد کھو دیا ہے۔ اگرچہ اس کا دارالحکومت میں دفتر ہے، لیکن اکثر اس کا پتہ نہیں چل پاتا۔یہاں صرف خانہ پری ہوتی ہے، کاغذوں پر صرف سیاسی تقرریاں ہو رہی ہیں۔
قابل غور ہے کہ قومی کمیشن برائے خواتین جنوری 1992 میں قومی کمیشن برائے خواتین ایکٹ 1990 کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایک قانونی ادارہ ہے جس کا مقصد خواتین کو آئینی اور قانونی تحفظ فراہم کرنا، ان کی شکایات کا ازالہ کرنا اور تمام پالیسی امور پر حکومت کو سفارشات دینا ہے۔
اس کی موجودہ چیئرپرسن وجیا کشور رہاٹکر ہیں ، جو پہلے مہاراشٹر خواتین کمیشن اور بی جے پی مہیلا مورچہ کی چیئرپرسن رہ چکی ہیں۔ کشور تقریباً تین دہائیوں سے بی جے پی سے وابستہ ہیں۔ وہ پارٹی کی قومی سکریٹری اور راجستھان یونٹ کی شریک انچارج کے طور پر کام کر چکی ہیں۔
اس سے پہلے قومی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن رہیں ریکھا شرمافی الحال ہریانہ کے بی جے پی کوٹے سے راجیہ سبھا کی رکن ہیں۔ وہ وزیر اعظم کے قریبی سمجھی جاتی ہیں۔ چیئرپرسن کے طور پر اپنے دور میں وہ اپنے خواتین مخالف تبصروں کی وجہ سے تنازعات میں بھی رہی ہیں ۔
دی وائر نے ڈی سی ڈبلیوکے حوالے سے دہلی کے محکمہ خواتین اور بچوں کی ترقی سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ای میل کے ذریعے محکمہ کو سوالات بھی بھیجے گئے ہیں۔ اس خبر کی اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ جواب ملنے پرخبر اپڈیٹ کی جائے گی۔
Related
Categories: خاص خبر, خبریں, گراؤنڈ رپورٹ

