یہ دن بھی دیکھنا تھے، وہ جن کے منہ میں زبان نہ تھی وہ بھی زبان درازی پر اتر آئے، وہ احسان مند جن کا سر اٹھتا نہ تھا وہ بھی بول پڑے، جن بتوں کو خود ہاتھ سے تراشا گیا انہوں نے بھی پتھر اٹھا لیے۔
صورت حال یہ کہ زبانیں آگ اُگل رہی ہیں۔۔ الزام، دشنام اور بہتان۔۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ بکری چوری، بھینس چوری حتی کہ گلی محلے کوچے کے آوارہ لونڈوں کی کارستانیاں یعنی گٹر کے ڈھکن، سائیکل کے ٹائر اور نلکے کی ہتھی چرانے تک کا الزام جنرل فیض حمید پر لگ چکا ہے۔ اپنے ہی گھر کے حصے میں بند جنرل فیض یقیناً سب دیکھ رہے ہوں گے اور سوچ رہے ہوں گے:
نیچا دی آشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا
کیکر تے انگور چڑھایا تے ہر گچھا آزمایا
بات انہونی ہی ہے کہ طاقت ور ترین جنرل جو سیاہ اور سفید کے مالک تھے آج کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ جنرل فیض کسی زمانے میں ’نام تھا اعتماد کا‘ جنرل باجوہ کا ’عامل‘ اور خان صاحب کا ’موکل‘۔ ایسا ہرکارہ کہ ججوں سے لے کر سیاست دانوں، بیوروکریٹس سے لے کر معمولی صحافیوں تک براہ راست رابطہ کار۔ چھوٹے سے چھوٹے کام سے لے کر بڑی سے بڑی اسائینمنٹ تک اپنی ذات میں مکمل ادارہ، ہر دم تیار ون مین آرمی اور ڈی جی سی سے لے کر ڈی جی آئی ایس آئی تک پاکستان کے سیاہ و سفید کا بلاشرکت غیرے مالک و مختار۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض کو بعض سیاست دان ایک شاطر اور چند ایک ’جابر جرنیل‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ انہیں جو ٹاسک دیا گیا انہوں نے وہ سیدھی ٹیڑھی انگلیوں سے پورا کیا۔ بطور ڈی جی سی فیض آباد دھرنے کو شروع کرانے کا الزام بھی ان کے نام اور پھر تاریخ میں پہلی بار بطور آئی ایس آئی افسر تحریک لبیک کے ساتھ باقاعدہ معاہدے پر دستخط کا سہرا بھی علی الاعلان ان کے سر پر ہی سجا۔
2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی ٹکٹیں بانٹنے سے لے کر آر ٹی ایس بٹھانے تک جنرل فیض نے سب ٹاسک مبینہ طور پر کامیابی سے پورے کیے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کی وجہ سے قانون سازی میں دقت ہو یا عمران خان کے لیے اعتماد کے ووٹ کا حصول، سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں سنجرانی صاحب کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کے ’موجود‘ 15 اراکین غائب کرانے کا معجزہ کرانا ہو یا جنرل باجوہ کی توسیع جیسی اہم قانون سازی مینج کرنا، ہم جیسے صحافیوں کے انٹرویوز رُکوانے ہوں یا ٹی وی چینلز کی پوزیشن تبدیل کرانی ہو، جنرل فیض ایک ہی وقت میں کار حکومت بھی چلاتے اور پھر طالبان کے کابل میں ’سب اچھا ہے‘ کا راگ بھی الاپتے۔
ریاست کے لیے جنرل فیض چھلاوا تھے یا جن، ادھر ان کے آقا چراغ رگڑتے ادھر جنرل فیض حاضر۔
جنرل فیض کا کردار اس قدر دلچسپ ہے کہ نیٹ فلیکس کے کئی سیکوئیل تخلیق کئے جا سکتے ہیں۔ 14 سال قید کی سزا کے ساتھ جنرل فیض کا جن بوتل میں واپس بھیجنے کی کوشش ہے مگر ان کے وجود سے نکلے چھوٹے چھوٹے کئی ’فیض یاب‘ عدلیہ،انتظامیہ، مقننہ فوج اور میڈیا میں موجود ہیں۔ کئی ایک بیوروکریٹ، صحافی، سوشل میڈیا انفلوئنسرز ان کی ’وراثت‘ کے وارث ہیں جو نہ جانے کب تک رہیں گے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلاشبہ دو ہزار پندرہ سے کر دو ہزار تئیس تک ترتیب دیے جانے والے ’پراجیکٹ‘ کے روح رواں اور سب سے اہم کردار بظاہر جنرل فیض ہی تھے تاہم اس فلم کے ہدایت کار جنرل باجوہ اور مرکزی کردار عمان خان تھے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جنرل فیض کا مقدمہ براہ راست ٹی وی پر نشر کیا جاتا تو عالمی ریٹنگز کے سب ریکارڈ ٹوٹ جاتے۔
کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ آخری وقت تک جنرل فیض ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں ’مداخلت‘ سے انکاری رہے یہاں تک کہ ناقابل تردید شواہد سامنے رکھے گئے۔ بعد کی قسمیں اور وعدے، پیشکش اور ارادے سب ڈرامے کی آخری قسط کا دلچسپ حصہ ہیں جو شاید ہی کبھی منظر عام پر آئے۔
طالبان سے مذاکرات اور جنگجو دہشت گردوں کی واپسی اور بسائے جانے جیسے جرائم جنرل فیض نے اکیلے نہیں کیے بلکہ جنرل باجوہ ،عمران خان اور ان کے دو قریب ترین بیوروکریٹ بھی اس میں برابر کے شریک تھے۔
اس سب کے پیچھے جو مقاصد تھے انہیں دسمبر دو ہزار اکیس میں آصف علی زرداری نے بھانپ لیا جس کے بعد نواز شریف کو اعتماد میں لیا گیا اور یوں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی بنیاد رکھی گئی۔ میں اس بارے میں گذشتہ دور میں کالم لکھ چکی ہوں بہرحال ان دہشت گردوں سے جو کام لیا جانا تھا اس پر ایک الگ انکوائری کی جانی چاہیے۔
دہشت گردوں کی پاکستان واپسی اور چند خطرناک طالبان رہنماؤں کی معافی ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا کا احاطہ ناممکن ہے۔
جنرل فیض کا احتساب ایک باب تو ہے تاہم مکمل کتاب نہیں۔ اس کہانی کے اہم کردار جنرل باجوہ سے تحقیقات کے بغیر یہ کہانی ادھوری رہے گی۔ سیاست سے فوج کے کردار کو ختم کرنا ہے تو کم از کم 75 سال کی نہیں بلکہ صرف گذشتہ ایک دہائی کی ہی تحقیقات کر لی جائیں تو مستقبل کا راستہ نکل سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

