قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں بدھ کو ڈائیریکٹر جنرل فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے انکشاف کیا کہ رواں سال بیرون ملک جانے والے 51 ہزار افراد کو آف لوڈ کیا گیا جبکہ 85 لاکھ افراد بیرون ملک گئے۔
ایوان زریں کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی کے اجلاس میں ڈائیریکٹر جنرل فیڈرل ایف آئی اے رفعت مختار نے بتایا کہ رواں سال سعودی عرب نے 24 ہزار افراد کو بھیک مانگنے پر پاکستان ڈی پورٹ/ملک بدر کیا ہے۔
چیئرمین کمیٹی آغا رفیع اللہ کی زیر صدارت اجلاس میں پاکستانیوں کو بیرون ممالک روانگی سے قبل آف لوڈ کرنے اور مختلف ممالک سے ڈی پورٹ کرنے سے متعلق معاملات زیر غور آئے۔
ڈی جی ایف آئی اے نے آف لوڈ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ مسافروں کو آف لوڈ کرنے کا فیصلہ دستاویزات، دستیاب ڈیٹا اور آن لائن ویریفیکیشن کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آف لوڈ کیے گئے مسافروں کے پاس اکثر اپنے کورس، یونیورسٹی یا ملازمت سے متعلق مکمل اور مستند معلومات موجود نہیں ہوتیں۔‘
ڈی جی ایف آئی اے کا مزید کہنا تھا کہ متعدد کیسز میں مسافر ایجنٹس کے ذریعے نامکمل یا غلط معلومات کے ساتھ بیرون ملک سفر کی کوشش کرتے ہیں، جس کے باعث انہیں روکا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مختلف ممالک کی جانب سے پاکستانی شہریوں کو بھیک مانگنے کے الزامات پر ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔
’رواں سال سعودی عرب نے 24 ہزار، دبئی نے چھ ہزار جبکہ آذربائیجان نے اڑھائی ہزار پاکستانی شہریوں کو ڈی پورٹ کیا۔‘
ڈی جی ایف آئی اے رفعت مختار کے مطابق مجموعی طور پر سعودی عرب کی جانب سے اب تک 56 ہزار پاکستانی شہریوں کو بھیک مانگنے کے باعث ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کمیٹی کو بتایا گیا کہ متعدد افراد عمرے کے نام پر یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے، جنہیں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر آف لوڈ کیا گیا۔
’ان افراد کے پاس یورپ جانے کے دستاویزی ثبوت موجود تھے، جس پر کارروائی عمل میں لائی گئی۔ رواں سال 24 ہزار افراد کمبوڈیا گئے جن میں سے 12 ہزار تاحال واپس نہیں آئے جبکہ برما سیاحتی ویزے پر جانے والے چار ہزار افراد میں سے اڑھائی ہزار واپس نہیں لوٹے۔‘
مطلوبہ افراد کی شناخت کیسے کی جاتی ہے؟
ایف آئی اے نے بریفنگ میں بتایا کہ تمام بڑے ایئرپورٹس کو آئی ڈی ایم ایس ٹو اور نادرا کے آن لائن ڈیٹا سے منسلک کر دیا گیا ہے، جبکہ امیگریشن کاؤنٹرز پر کیمرے نصب ہیں اور کنٹرول ہیڈکوارٹر سے نگرانی کی جا رہی ہے۔
حکام کے مطابق ’امیگریشن نظام میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے مشتبہ کیسز کی پیشگی نشاندہی کی جا رہی ہے، تاکہ انسانی مداخلت کم اور سسٹم بیسڈ کلیئرنس کو ترجیح دی جا سکے۔‘
ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ مجموعی طور پر 66 ہزار مسافروں کو اپ لوڈ کیا گیا، جن میں بڑی تعداد لاہور اور کراچی ایئرپورٹس سے تھی۔ جبکہ آف لوڈ کیے گئے مسافروں کی اکثریت وزٹ، عمرہ اور ورک ویزا کی کیٹیگری سے تعلق رکھتی تھی۔
آٹھ ہزار پاکستانی غیر قانونی طور پر یورپ گئے: ایف آئی اے
ڈی جی ایف آئی اے رفعت مختار نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستانی پاسپورٹ کی رینکنگ 118 سے بہتر ہو کر 92 پر آ گئی ہے۔
ان کے مطابق گذشتہ برسوں میں پاکستان غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے افراد کے حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل تھا۔ ’تاہم نئی پالیسیوں کے باعث اب پاکستان اس فہرست سے نکل چکا ہے۔‘
ایف آئی اے نے بتایا کہ گذشتہ سال آٹھ ہزار پاکستانی غیر قانونی طریقے سے یورپ گئے، جبکہ ’رواں سال یہ تعداد چار ہزار تک محدود رہنے کا امکان ہے۔‘
اجلاس میں بتایا گیا کہ دبئی اور جرمنی نے پاکستانی سرکاری پاسپورٹس پر ویزہ فری سہولت فراہم کی ہے۔ ’ایمی ایپلی کیشن جنوری کے وسط میں لانچ کی جائے گی، جس کے تحت بیرون ملک جانے والے مسافر روانگی سے 24 گھنٹے قبل امیگریشن کلیئرنس حاصل کر سکیں گے۔‘
اسی کمیٹی کے اجلاس میں زمبابوے میں تعینات پاکستانی سفیر نے انکشاف کیا کہ ایتھوپیا اور زیمبیا کے راستے پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر یورپ جا رہے ہیں۔
کمیٹی کو ایک جعلی فٹ بال کلب کے ذریعے کھلاڑیوں کو جاپان بھجوانے کے کیس پر بھی بریفنگ دی گئی، جس میں ’ایک معذور شخص کے جاپان جانے کا انکشاف ہوا۔ بعد ازاں تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہی جعلی کلب سال 2022 میں بھی فٹ بال ٹیم جاپان بھیج چکا ہے۔‘

