کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے گذشتہ روز نئے سال کے لیے تنظیم سازی کا اعلان کیا ہے، جس میں اس بار ’فضائی فورس‘ اور ’کشمیر‘ بھی شامل ہے۔
یہ تنظیم سازی ہر سال کی جاتی ہے، لیکن اس بار ’فضائی فورس‘ کا نیا شعبہ شامل کیا گیا ہے، جس کے لیے مولوی سلیم حقانی کو سربراہ مقرر کیا گیا ہے، جبکہ حمزہ کو الیکٹرانکس اور ورکشاپ شعبے کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے ’فضائی فورس‘ کی تشکیل کا مطلب کیا ہے اور کیا اس شعبے کا تعلق حالیہ دنوں میں ڈرون یا کواڈ کاپٹر حملوں کے ساتھ ہے۔
خیبر پختونخوا پولیس کے 2025 کے اعدادوشمار کے مطابق صوبے میں شدت پسندوں کی جانب سے 54 ڈرون حملے کیے گئے ہیں، جن میں سب سے زیادہ حملے شمالی وزیرستان اور بنوں میں کیے گئے۔
شدت پسندوں کی جانب سے ڈرون حملوں کی کچھ ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں، جن میں ڈرون یا چھوٹے کواڈ کاپٹر کو بطور ہتھیار استعمال ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔
پشاور میں مقیم شدت پسندی کی رپورٹنگ میں تجربہ رکھنے والے صحافی رسول داوڑ کے مطابق شدت پسندوں کی جانب سے کواڈ کاپٹر استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ مارٹر گولہ یا دیسی ساختہ بم منسلک کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مارٹر گولے یا دیسی ساختہ بم پر دو سے تین ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے، جبکہ کواڈ کاپٹر دو سے تین لاکھ روپے تک ملتا ہے، اور 2025 میں اس کے استعمال میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان ہوں یا دیگر ’جہادی تنظیمیں‘، ان کے پاس فضائی کارروائیوں جیسے کہ دیسی ساختہ میزائل چلانے کا تجربہ موجود ہوتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس اختر علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 80 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف اس وقت کی ’مجاہدین تنظیمیں‘ میزائل کے استعمال کے ذریعے طیارے گرانے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ سوویت یونین کے خلاف امریکی اتحاد کی جانب سے مجاہدین کو سپورٹ دی جاتی تھی اور افغان طالبان اس کے لیے تربیت یافتہ تھے۔
اختر علی شاہ نے بتایا، ’اب پاکستانی طالبان نے بعض مواقع پر میزائل سے کارروائیاں کی ہیں اور ان میں بھی ماہر افراد موجود ہوں گے، جبکہ ان کی جانب سے ڈرون کا استعمال بھی ایک چیلنج ہے جو مہلک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
دوسری جانب گذشتہ 20 سال سے شدت پسندی کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی رفعت اللہ اورکزئی سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے ’فضائی فورس‘ کے قیام کا اعلان خود کو ایک منظم تنظیم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کی فضائی حملوں کی صلاحیت اتنی نہیں ہے، تاہم ڈرون اور کواڈ کاپٹر کا استعمال انہوں نے شروع کر دیا ہے، لیکن اس کے لیے کسی خاص مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
رفعت اللہ نے بتایا، ’پہلے اگر کسی گاڑی میں بارود بھر کر دھماکہ کرنا ہوتا تھا تو اس پر خرچہ بھی زیادہ آتا تھا، جبکہ اب کواڈ کاپٹر سستا بھی پڑتا ہے، اور اس کے ذریعے ٹی ٹی پی اپنی ڈیفنس بھی کر سکتی ہے، اسی وجہ سے اسے بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
ڈرون اور کواڈ کاپٹر کے حوالے سے رفعت اللہ نے بتایا کہ یہ افغانستان میں بہت آسانی سے مل جاتے ہیں، تاہم افغان طالبان نے اب ڈرون اڑانے پر پابندی عائد کر دی ہے، جبکہ یہ بلیک مارکیٹ میں فروخت کیے جا رہے ہیں۔
کشمیر کون سا؟
اس تنظیم سازی میں رواں سال کشمیر کو بھی صوبے کا درجہ دیا گیا ہے اور اس کے لیے گورنر مقرر کیا گیا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم تنظیم سازی کے دستاویزات میں یہ واضح نہیں ہے کہ اس سے مراد پاکستان یا انڈیا کے زیر انتظام کشمیر ہے۔
ٹی ٹی پی نے پاکستان کے مختلف علاقوں کو مختلف زونز میں تقسیم کیا ہے اور ان کے لیے نام نہاد گورنرز بھی مقرر کیے ہیں۔ ان زونز میں ایک شمالی زون ہے، جس میں ملاکنڈ ڈویژن، مردان، ہزارہ، باجوڑ، گلگت بلتستان اور کشمیر شامل کیے گئے ہیں، جس کے لیے موسیٰ کلیم کو سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ جن افراد کے نام ظاہر کیے گئے ہیں یہ ان کے اصلی نام ہیں یا نہیں۔
جنوبی زون میں بنوں، کرک، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، شمالی و جنوبی وزیرستان، جنوبی پنجاب، کراچی اور اندرون سندھ کو شامل کیا گیا ہے۔
وسطی زون میں پشاور، نوشہرہ، چارسدہ، خیبر، مہمند، کوہاٹ، اورکزئی، کرم، ہنگو اور شمالی پنجاب کو شامل کیا گیا ہے، جبکہ مغربی زون میں بلوچستان شامل ہے۔
دیگر شعبہ جات کی بات کی جائے تو تنظیم سازی پہلے کی طرح کی گئی ہے، جس میں ملٹری یونٹ، سیاسی کمیشن، انٹیلیجنس، فنانس، بہبود، تعلیم، دعوت، میڈیا، احتساب اور عدلیہ جیسے شعبہ جات کے لیے سربراہان مقرر کیے گئے ہیں۔
فضائی یونٹ کی تشہر سے ماہرین کے مطابق طالبان یہ پیغام بھی دینا چاہتے ہیں کہ وہ جدید تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کر رہی ہیں۔

