غزہ میں قحط کی باضابطہ تصدیق، انسانی بحران سنگین ترین مرحلے میں داخل

Screenshot 20250822 145746




غزہ/نیویارک (مانیٹرنگ ڈیسک) اقوامِ متحدہ سے منسلک عالمی ادارہ Integrated Food Security Phase Classification (IPC) نے پہلی مرتبہ غزہ سٹی میں قحط (Famine) کی باضابطہ تصدیق کر دی ہے، جسے خوراک کی شدید کمی کا سب سے خطرناک مرحلہ قرار دیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر فوری اور بڑے پیمانے پر انسانی امداد نہ پہنچی تو یہ بحران غزہ کے دیگر اضلاع دیر البلح اور خان یونس تک پھیل سکتا ہے۔

ادارے کے مطابق اس وقت پانچ لاکھ سے زائد افراد بھوک اور غذائی قلت کے انتہائی کٹھن مرحلے سے گزر رہے ہیں جبکہ بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ یہ قحط "انسان ساختہ” ہے، جس کی بنیادی وجہ جاری جنگ، تباہ حال انفراسٹرکچر اور امداد کی ناکافی ترسیل ہے۔

بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے فوری جنگ بندی اور بلا تعطل انسانی امداد کی رسائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ActionAid اور UNRWA نے کہا ہے کہ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو ہزاروں جانیں ضائع ہو سکتی ہیں، خاص طور پر معصوم بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہو کر موت کے دہانے پر ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی حکومت نے غزہ سٹی پر بڑے فوجی آپریشن کی تیاریوں کی منظوری دے دی ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے خبردار کیا کہ اگر حماس نے ہتھیار نہ ڈالے اور یرغمالیوں کو رہا نہ کیا تو "دوزخ کے دروازے کھل جائیں گے۔” اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی بھی مشروط پیشکش کی ہے تاہم 60 ہزار ریزرو فوجیوں کو طلب کر لیا گیا ہے جس سے بڑے حملے کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔

گزشتہ کئی روز سے غزہ سٹی پر شدید بمباری اور زمینی کارروائیاں جاری ہیں، جس کے باعث ہزاروں افراد بے گھر اور درجنوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ طبی ذرائع کے مطابق اسپتالوں میں ادویات اور ایندھن ختم ہونے کے باعث علاج معالجہ تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔

غزہ میں نہ صرف خوراک بلکہ پینے کے صاف پانی، بجلی اور صحت کی سہولیات کا بحران بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر صورتحال فوری طور پر قابو میں نہ آئی تو غزہ دنیا کے بدترین انسانی المیوں میں شامل ہو جائے گا۔

متعلقہ پوسٹ