The Global Image of Islam and Pakistan’s Silent Role
حال ہی میں برطانیہ کے علاقے ہیمپشائر میں منعقد ہونے والے مذہبی سہہ روزہ اجتماع “جلسہ سالانہ 2025” نے ایک بار پھر یہ واضح کیا کہ اسلام محض عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو عالمی امن، انسانی احترام، بین المذاہب رواداری اور سماجی خدمت پر مبنی ہے۔ اس تین روزہ اجتماع میں دنیا کے 100 سے زائد ممالک سے ہزاروں شرکاء نے شرکت کی۔ ان میں سفارت کار، ارکانِ پارلیمنٹ، مختلف مذاہب کے نمائندے، صحافی، خواتین، نوجوان اور سماجی کارکن شامل تھے۔ اس تنوع نے اس اجتماع کو ایک مذہبی تقریب سے بڑھا کر ایک بین الاقوامی اخلاقی اور فکری پلیٹ فارم میں تبدیل کر دیا۔
اس اجتماع کی خاص بات اس کا تنظیمی وقار، اخلاقی سنجیدگی، اور فکری وسعت تھی۔ خواتین و مردوں کے الگ الگ انتظامات، درجنوں زبانوں میں بیک وقت ترجمے کی سہولت، عالمی سیاست، امن، اور انسانیت جیسے موضوعات پر مبنی تقاریر اور اختتامی دن کی اجتماعی بیعت—یہ سب اس تقریب کو غیر معمولی بنا دیتے ہیں۔ ان تقاریر میں مذہبی جوش و خروش کے بجائے فکری پختگی اور عالمی بصیرت نمایاں تھی۔ دنیا بھر میں جنگوں، معاشی استحصال اور بین الاقوامی ناانصافیوں پر تنقید کرتے ہوئے مقرر نے دنیا کے حکمرانوں کو یاد دلایا کہ اگر عدل کو پامال کیا گیا تو دنیا ایک بڑے تصادم کی طرف جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی اخلاقی اصلاح، انسان دوستی، اور تقویٰ جیسے روحانی تصورات پر بھی زور دیا گیا۔ یہ تمام باتیں اسلام کے ان پہلوؤں کی ترجمانی کرتی ہیں جن کا دنیا کو اس وقت شدید ضرورت ہے۔
اختتامی دن کی تقریب بیعت نے اس اجتماع کو ایک غیر معمولی منظر میں بدل دیا، جہاں لاکھوں افراد نے براہِ راست نشریات کے ذریعے ایک اخلاقی و روحانی عہد کیا۔ یہ منظر نہ صرف ان کے ماننے والوں کے لیے بلکہ غیر جانب دار مبصرین کے لیے بھی ایک نایاب مثال تھا کہ کس طرح مذہب ایک مثبت، مہذب اور پرامن طرزِ زندگی کی تلقین کر سکتا ہے۔
یہ جلسہ محض ایک موجودہ مظہر نہیں بلکہ ایک تاریخی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس سے قبل ایسے ہی اجتماعات پاکستان میں بھی منعقد ہوتے رہے ہیں، 1983 میں ہونے والے آخری جلسہ سالانہ پاکستان میں دو لاکھ سے زائد افراد شریک ہوئے، جو اُس وقت کے کسی بھی مذہبی یا سیاسی اجتماع کے لیے ایک غیر معمولی حاضری تھی۔ مگر پھر اس پر حکومتی پابندی لگا دی گئی، اور یہ روایت پاکستان سے نکل کر دنیا کے دیگر ممالک میں فروغ پاتی گئی۔
آج برطانیہ، جرمنی، امریکہ اور کینیڈا میں یہی اجتماع آزادی کے ساتھ نہ صرف منعقد کیا جاتا ہے بلکہ حکومتی تعاون، سیکورٹی، اور سماجی پذیرائی کے ساتھ ہوتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان، جو اسلام کے نام پر حاصل ہوا تھا، وہ ان اجتماعات کے لیے تنگ دامن اور عدم برداشت کا نمونہ بن چکا ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ سوال سراٹھاتا ہے کہ کیا پاکستان میں مذہب کے پرامن، منظم اور بین الاقوامی پیغام کو پیش کرنا واقعی ممکن نہیں رہا؟
ریاستِ پاکستان کو اس ضمن میں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ مذہبی اجتماعات پر پابندی نے جہاں اندرونی فکری جمود پیدا کیا ہے، وہیں عالمی سطح پر پاکستان کی تصویر کو بھی مسخ کیا ہے۔ اگر مغربی دنیا اسلام کے ان نمائندوں کو موقع فراہم کر سکتی ہے تو ایک اسلامی ریاست ایسا کیوں نہیں کر سکتی؟ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مذہبی طبقات، بالخصوص علما کو بھی اپنی ذمے داری کا احساس کرنا چاہیے۔ صرف مخالف عقائد کو رد کرنا یا فتوے جاری کرنا دین کی خدمت نہیں، بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو علمی، پرامن اور اخلاقی انداز میں دنیا کے سامنے رکھنا ہی اصل خدمت ہے۔
اسلام اس وقت دنیا میں شدید غلط فہمیوں کا شکار ہے۔ انتہا پسندی، شدت، اور عدم برداشت نے اسلام کے پرامن پیغام کو داغ دار کر دیا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی فرقہ، گروہ یا ادارہ اسلام کے مثبت اور تعمیری پہلو کو دنیا کے سامنے دلیل، عمل اور اخلاقیات کے ساتھ پیش کر رہا ہے، تو اس کی مخالفت کے بجائے اسے سراہا جانا چاہیے۔
پاکستان میں مذہبی رواداری اور فکری وسعت کا فقدان صرف اقلیتوں کے لیے نقصان دہ نہیں بلکہ اکثریتی طبقے کے لیے بھی تباہ کن ہے۔ ہم نے اختلاف کو دشمنی، اور نظریاتی فرق کو ارتداد میں بدل دیا ہے۔ اس ماحول میں علمی، اخلاقی، اور تنظیمی خوبصورتی کے حامل اجتماعات کا خاتمہ ایک قومی نقصان ہے، جس کے اثرات ہم سماجی زوال اور بین الاقوامی تنہائی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اگر پاکستان خود کو اسلامی دنیا کی قیادت کا اہل سمجھتا ہے، تو اسے مذہبی آزادی، فکری تنوع اور بین الاقوامی سطح کے مذہبی مکالمے کی اجازت دینی ہوگی۔ ریاست کو مذہب کو جذباتی اور سیاسی فائدوں سے نکال کر روحانی، اخلاقی اور فکری ترقی کی طرف لے جانا ہوگا۔ اگر ریاست اس سمت میں قدم نہیں اٹھاتی تو دنیا میں اسلام کے مثبت تعارف کا میدان دوسروں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا — اور پاکستان اپنی نظریاتی بنیاد کے باوجود خاموش تماشائی بن کر رہ جائے گا۔اسلام کو دلیل، نظم، عدل اور حسنِ عمل کے ساتھ پیش کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اور اگر ریاست اسلامیہ پاکستان نے اس ضرورت کو پہچاننے میں مزید دیر کی، تو نوجوان صرف نعروں میں الجھتے رہیں گے، اور اسلام کا روشن چہرہ معاشرے کی نگاہوں سے مزید دور ہوتا جائے گا۔
اسلام کو دلیل، نظم، عدل اور حسنِ عمل کے ساتھ پیش کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اور اگر ریاست اسلامیہ پاکستان نے اس ضرورت کو پہچاننے میں مزید دیر کی، تو نوجوان صرف نعروں میں الجھتے رہیں گے، اور اسلام کا روشن چہرہ معاشرے کی نگاہوں سے مزید دور ہوتا جائے گا۔