تیرہ اگست 2004 کا دن تھا، جب میں نے جرمنی میں قدم رکھا تھا۔ غریبی چہرے سے ٹپکتی تھی، یوں لگتا تھا، جیسے کسی نے خون نچوڑ لیا ہو، ہڈیوں کو بس جلد نے ڈھانپ رکھا تھا۔
چھوٹی عمر میں ہی گھر سے نکل آئے تھے، تب خیالات بہت مختلف تھے۔ یہی تھا کہ کچھ عرصہ جرمنی میں گزارنا ہے، تعلیم حاصل کرنی ہے، اپنے مالی حالات درست کرنا ہیں، واپس بہن بھائیوں اور ماں باپ کے پاس چلے جانا ہے۔
لیکن ایسا ہو نہ سکا اور میں آج تقریبا 21 برس بعد بھی واپس نہیں جا سکا۔ خیر! اب تو واپس جانے کا ارادہ بھی نہیں ہے، یہی خواہش ہے کہ جہاں زندگی کی شام ہو جائے، وہیں زمین کے حوالے کر دیا جائے۔
جس سر زمین پر آپ پیدا ہوتے ہیں، وہاں کی مٹی اور ریت آپ کی ہڈیوں میں پیوست ہوتی ہے۔ آپ چاہتے ہوئے بھی اس مٹی کو خود سے جدا نہیں کر سکتے۔ شاید مٹی، ان عادات کا نام ہے، جو آپ بچپن سے ہی ساتھ لے آتے ہیں، ان سوچوں کا نام ہے، جو آج بھی آپ کی انگلی پکڑے گاؤں کی گلیوں میں لے جاتی ہیں۔ کھانوں کے چکھنے اور پسند کرنے کے ان ذائقوں کا نام ہے، جو ماں کی گود میں ہی آپ سے جڑ جاتے ہیں اور پھر زندگی کی آخری شام تک، یہ مٹی، یہ ریت، یہ ذائقے، یہ سوچ اور یادیں آپ کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
14 اگست کو جب میرے گھر والے، میرے دوست اور پاکستان والے یوم آزادی منا رہے ہوتے ہیں، مجھے اپنی ہجرت یاد آ جاتی ہے۔
مجھے ابھی تک یہی سوال تنگ کرتا ہے کہ میں نے گاؤں کیوں چھوڑا تھا، میں اپنے گھر والوں سے کیوں جدا ہوا تھا، میں اپنے قافلے سے الگ تھلگ کیوں ہو گیا تھا؟
جواب یہی ملتا ہے کہ پاکستان مجھے تعلیم نہیں دے پا رہا تھا، پاکستان مجھے دو وقت کی باعزت روٹی دینے سے انکاری تھا، یہ شاید غربت تھی یا وہاں کے لوگ، مجھے میری بنیادی عزت نفس دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
میں اب بھی سوچتا ہوں کہ اگر گھر میں دانے ہوتے تو میں یوم آزادی سے ایک دن پہلے کبھی بھی پاکستان نہ چھوڑتا، اپنے رشتے نہ چھوڑتا، اجنبیوں کے دیس میں نہ آتا اور تنہا ایک بیگ لیے بون شہر کے ریلوے اسٹیشن پر نہ آ کھڑا ہوتا۔
اپنا ملک چھوڑنے والے لاکھوں پاکستانیوں کی طرح میں بھی اندر سے تقسیم ہو چکا ہوں۔ جرمنی نے میرا اس وقت ہاتھ تھاما، جس وقت پاکستان نے مجھے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا تھا، جس وقت میں اپنی کالج کی فیس ادا نہیں کر سکتا تھا، جس وقت میرے پاس بس کا کرایہ نہیں تھا، جس وقت میرے ماں باپ ایک سائیکل نہیں خرید سکتے تھے، جس وقت مہینے میں ایک دن بھی گوشت پکانے کے لیے پہلے دس مرتبہ سوچنا پڑتا تھا۔
جرمنی نے مجھے بتایا کہ تمہارا اعلیٰ خاندان ضروری نہیں ہے، تمہارا امیر ہونا ضروری نہیں ہے، غریب ہونا کوئی جرم نہیں ہے، تم با حیثیت انسان قابل احترام ہو، تم اکیلے ہونے کے باوجود قانون کی نظر میں برابر ہو، تمہاری سواری ویسی ہی ہو گی، جیسی یہاں صدیوں سے آباد جرمنوں کی ہے، تمہیں بنیادی تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، تمہاری صحت کا خیال ویسے ہی رکھا جائے گا، جیسے یہاں کے کسی سیاستدان کا رکھا جاتا ہے، تمہیں معاشرے میں، سرکاری دفاتر میں، پولیس اسٹیشنوں پر، دکانوں پر ویسی ہی عزت دی جائے، جیسی یہاں ہر کسی کو ملتی ہے۔
مجھے جرمنی نے وہ سب کچھ دیا، جو پاکستان نے دینے سے انکار کر دیا تھا۔
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ وہ، جس سے میں محبت کرتا ہوں، جہاں کی مٹی میری ہڈیوں میں پیوست ہے، وہ میرا پاکستان تھا یا پاکستان کی ایلیٹ کا؟ وہ میرا پاکستان تھا یا فوج کے جرنیلوں کا، وہ میرا پاکستان تھا یا سیاہ و سفید کے مالک سیاستدانوں کا، وہ میرا پاکستان تھا یا جاگیرداروں کا؟
آزادی مجھے ملی تھی یا ان طبقیات کو، جو آج تک اپنی من چاہی سلطنت قائم رکھے ہوئے ہیں، جو آج تک، جس کو چاہتے ہیں، تخت پر بٹھا دیتے ہیں، جس کو چاہتے ہیں، اتار دیتے ہیں، جن کی گاڑیوں کے مفت پٹرول کے پیسے بھی آج تک ایک مزدور ادا کر رہا ہے۔ پہلے یہ مزدور میرا والد تھا، اب میرے جیسے کسی دوسرے امتیاز کا والد ہو گا۔
جن کے بیرون ملک علاج کے لیے بھی حکومت الاؤنس دیتی ہے، جن کے بچوں کو رات کی پارٹیاں کرنے کے لیے بھی سرکاری گاڑیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ میرے خیال سے یہ آزادی شاید انہی کو میسر تھی۔ ہم بس اس ایلیٹ کی اطاعت کے لیے تھے، ہمارے علاج کے لیے بس پینا ڈول ہی بنی تھی، ہمارے لیے بغیر دیواروں اور چھتوں والا اسکول نمبر چار ہی تھا، ہمارے لیے ریڑھی پر رکھے وہی داغی پھل بچتے تھے، جو کوئی خریدتا نہیں چاہتا تھا۔
خیال آتا ہے کہ اگر گھر میں دانے ہوتے تو میں کیوں ملک چھوڑ کر جرمنی آتا؟
کل 14 اگست کو ملک بھر میں یوم آزادی منایا جائے گا، نغمے ہوں گے، ملی ترانے ہوں گے، فوج کی پریڈ ہو گی، بھارت کو ہرا دینے کے چرچے ہوں گے، پاکستان کے نئے نقشے میں کچھ بھارتی علاقے شامل ہوں گے، لیکن اسی شور و غل میں کچھ میرے جیسے بھی ہوں گے، جن کے بارے میں پاکستان کی ایلیٹ سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے، وہ ایلیٹ جسے بس اپنا مفاد عزیز ہے۔
یہ وہ نوجوان ہوں گے، جن کے مستقبل تاریک ہو چکے ہیں، جن کے پاس پڑھائی کے لیے پیسے نہیں ہیں، ہزار کوششوں کے باوجود معاشرہ انہیں باعزت شہری جیسی عزت دینے کے لیے تیار نہیں ہے، جن کے گھر دانے نہیں ہیں، جن کا بھڑولا خالی ہو چکا ہے۔
