نیویارک: امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد ترکیہ میں قدیمی مسیحی علوم کا مدرسہ دوبارہ کھولنے کی توقع بڑھ گئی ہے۔ یہ مدرسہ کئی دہائیوں سے بند ہے اور مسیحی برادری طویل عرصے سے اس کے احیاء کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔
ذرائع کے مطابق ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، خطے کی صورتحال اور مذہبی آزادی کے موضوعات پر بھی گفتگو ہوئی۔ ٹرمپ نے مذہبی آزادی کو امریکہ کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو قرار دیا جبکہ ایردوآن نے کہا کہ ترکیہ ہمیشہ مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے احترام کے لیے اپنی پالیسی پر کاربند رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق مسیحی قدیمی علوم کا یہ مدرسہ مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ علمی و ثقافتی تحقیق کا اہم مرکز رہا ہے، جس نے ماضی میں مشرقی یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے ہزاروں طلباء کو تعلیم دی۔ مدرسے کی بحالی نہ صرف ترکیہ کے اندر مسیحی برادری کے لیے ایک بڑا قدم تصور کی جا رہی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اسے مذہبی رواداری اور مکالمے کی مثبت علامت قرار دیا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ مدرسہ دوبارہ کھلتا ہے تو ترکیہ کے امیج میں بہتری آئے گی اور یہ اقدام مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان اعتماد سازی کی راہ ہموار کرے گا۔ بین الاقوامی برادری، بالخصوص یورپی یونین اور امریکہ، طویل عرصے سے اس ادارے کے دوبارہ کھلنے کے حق میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔