تحریر:(نعیم احمد باجوہ)
برطانیہ کے شہر آکسفورڈ میں داخل ہوں تو ایک عجیب سا گمان ہوتا ہے کم و بیش ہر عمارت پر مینار ے نظر آتے ہیں۔ یہ یہاں کا تعمیراتی انداز ہے۔ پہلی بار جانےوالے کو خیال آتا ہے کہ شاید ہر گلی میں مسجد موجود ہے۔ لیکن نہیں ان عمارتوں میں گھر ، سکول ، دفاتر، ہوٹل ، ریستوران، کافی خانے، شراب کے اڈے ، جوا خانے سب ہیں۔ عمارتوں پرطائرانہ نظر ڈالتے ہی مساجد کے میناروں کا خیال آتا ہے۔ تاہم برطانیہ میں بسنے والے مسلمانوں کو کوئی تکلیف نہیں کہ ہماری مساجد کے میناروں سے مشابہ مینارے عیسائیوں کی عمارتوں، جوا خانوں اور شراب خانوں پر کیوں ہیں۔
ہاں یہ خیال پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کو بہت شدت سے آتا ہے کہ کہیں ہماری مسجد جیسا کوئی مکان نہ بنالے، ہمارے مینار جیسا مینار تعمیر نہ کرلے، ہماری عبادت کے مشابہ کوئی عبادات نہ کر لے۔
وطن عزیز میں یوں تو ہر روز نئے سے نئے المناک حادثے جنم لیتے ہیں لیکن اس چودہ اگست کی آڑ میں نکلے آزادی جلوس نے فیصل آباد کرتاپور میں احمدیوں کی دو مساجد پر حملہ کر کے اور بعد ازاں آگ لگا کرکیاخوب آزادی جشن منایا ہے۔ ایسا جشن جس کی آزادی راہنماؤں کو خبر نہ ہو سکی تھی۔ قائد اپنی معصومیت میں ’’ آپ آزاد ہیں ملک پاکستان میں اپنی اپنی عبادت گاہوں ، مسجدوں یامندروں میں جانے کے لئے۔ آپ کا مذہب کیا ہے ذات کیا ہے۔ قوم کیا ہے۔ اس کا حکومت کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘ کہتے اس عالم گزران سے روانہ ہوئے۔
لیکن ہم نے یہ سمجھا ہے کہ ہم آزاد ہیں دوسروں کو عبادات سے روکنے میں ، ہم آزاد ہیں گرجوں کو جلانےمیں، ہم آزاد ہیں احمدیوں کی مساجد کو عین چودہ اگست کو آگ لگا کر جشن منانے میں ۔ اور وہ بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں۔اس جشن آزادی پر ہم نے پرچم میں پائے جانے والے سفید حصہ برائے تحفظ اقلیت پر موجود پہلے سے بے شمار خون کے دھبوں، بے حرمت ہوتی لاشوں، قبروں کے ٹوٹے کتبوں میں جلتی عبادت گاہوں کے الاؤ بھی شامل کر دئے ہیں۔
کیا روشن مثال اقلیتوں کے تحفظ کی ہے۔ کیا عمدہ نمونہ اسلامی اقدار کا ہے۔ ایسے اخلاق کو دیکھ کر ، ایک اقلیت کی عبادت گاہ پر لونڈے لپاڑوں کے پتھراؤ کےماڈل کو کسی غیر مسلم کے سامنے پیش کر پائیں گے؟ ویسے اس کی فکر کس کو ہے۔ جتنی فکر ہمیں دائرہ اسلام سے لوگوں کو نکالنے کی ہے اس کا ہزاواں حصہ بھی اسلام میں داخل کرنے کی نظر آئے تو اس درویش کے علم میں بھی اضافہ کیجئے گا ۔
اس پرچم کے سائے تلے اکھٹی ہونے والی قوم کا نعرہ کیا معنی رکھتا ہے۔ اب تو نفرتوں کےسائے تلے جمگھٹے چند لمحوں میں جمع ہوتے او روہ کر گزرتے ہیں جس کا تصور کسی بھی مہذب معاشرےمیں نہیں کیا جا سکتا۔
کیا نفرتوں کے یہ سائے ایک دم میں چھا جاتے ہیں؟ نہیں ۔ ہرگز نہیں۔ یہ پروان چڑھائے گئے ہیں ۔ ان کی آبیاری کی گئی ہے۔ اپنے مقاصد، اپنی خواہشات کی تکمیل کی خاطر انہیں پنپنے دیا گیا ہے۔ برسوں اس انتہاء پسندی کے عفریت کی پالنے کے نتائج ہیں جو نہ صرف اقلیتوں بلکہ خود مسلمانوں کو بھی لقمہ بنانے پر تلا بیٹھا ہے۔ کہیں ساڑھے چار صد کے قریب نوجوان ’’بلاسفیمی گینگ ‘‘ کا شکار بنتے ہیں تو کہیں برقع سے شہرت پانے والے ’’مولانا‘‘ زبردستی سب کو برقع پہنانے پر مجبو رکرتے نظر آتے ہیں بے شک وہ پولیس کی خواتین ہی کیوں نہ ہوں اور ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہوئے مناسب پردہ پہلے ہی کر رہی ہوں۔لیکن ہمیں اپنی پسند کا مذہب پسند ہے۔ اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے۔ ہماری پسند کا پردہ ، ہماری پسند کی عبادت ، ہماری پسند کی مساجد اور عبادت گاہیں۔ جو ہمارے نظریہ سے اختلاف رکھے اسے اس آزاد مملکت میں رہنے کا حق تو نہیں ہے ناں ۔ ہمیں اپنے معاملات کی خبر ہو نہ ہو دوسرے کے مسئلہ سے سروکار ضرورہے۔ ہمیں خود دین کا علم ہو نہ ہو لیکن دوسروں کے دین پر نظر رکھنا ضروری ہے۔
شاید ہم نے گزشتہ اٹھتر برس میں صرف اختلاف سیکھا ہے اختلاف کرنے کے آداب نہیں سیکھے۔ نفرت سیکھی ہے لیکن محبت سے ، اپنے اخلاق کریمانہ سے، اپنے عمدہ نمونے سے ، حسن خلق سے دوسرے کو گرویدہ کرنا نہیں سیکھا۔
نفرتوں کے ڈھابے چلانے والوں نے نسلوں کا قرض اٹھا لیا ہے۔نفرتوں کےسائے تلے پنپنے والی پریشان نسلوں کی حالت قابل رحم ہے۔ایک ہاتھ میں پرچم دوسرے میں پتھر اور دل میں نفرت کا ابلتا لاوا صرف سامنے والے کو نہیں جلائے گا خود کو بھی ایسا بھسم کرے گا کہ خبر نہ ہوگی۔
اگر آج قائد عالم بالا سے جلتی عبادت گاہ کا یہ منظر دیکھتے، تو کیا وہ بھی نعرہ لگاتے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ یا پھر خاموشی سے یہ کہتے ہوئے پلٹ جاتے:یہ وہ پاکستان ہرگز نہیں جس کی خواہش میں نے کی تھی ۔