عالمی شہرت کا حامل 77 واں سالانہ بین الاقوامی کتاب میلہ 15 سے 19 اکتوبر تک فرینکفرٹ میں منعقد ہوا۔ جس میں دنیا کے 131 ممالک سے 4350 ناشرین اور کتابیں چھاپنے والے اداروں نے اسٹالز لگائے۔ دو لاکھ اڑتیس ہزار لوگوں نے کتابوں کے اسٹالز سے استفادہ کیا اور اپنے آرڈر بک کروائے۔ سات ہزار آٹھ سو صحافیوں اور میڈیا نمائندگان نے بھی شرکت کی۔ یہ کتاب میلہ حسبِ معمول چھ وسیع و عریض ہالز میں لگایا گیا تھا جہاں نئی شائع ہونے والی کتابوں کی تعارفی تقاریب کے علاوہ ثقافت، حقوقِ انسانی، موسیقی اور فلم کے موضوعات پر لیکچرز، سیمینارز اور تقریبات کا اہتمام بھی کیا گیا۔
پانچ روز میں کل تقریباً تین ہزار پانچ سو کے قریب ایسی تقریبات منعقد ہوئیں۔ 14 اکتوبر کی شام کو کتاب میلے کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ اس کے علاوہ انتہائی دلچسپ موضوعات میں جنگ کے ماحول میں کتاب فروشوں کے مسائل، اشاعتی صنعت میں خواتین کا کردار، بچوں کا رجحان اور کتاب کی اہمیت، اور حقوقِ انسانی کے حوالے سے بھی دو کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ فلسطین کی ثقافت کو درپیش خطرات کے عنوان سے بھی ایک مکالمہ (پوڈیم ڈسکشن) ہوا۔
میڈیا کی طاقت اور حقوقِ انسانی کے عنوان سے ہونے والی مکالماتی نشست میں نوبل انعام برائے امن کی حامل ماریا ریسا اور نیٹو کے سابق سیکرٹری جنرل ینس اسٹولٹن برگ نے بھی حصہ لیا۔ اسی طرح ایشیائی خواتین کا ادب میں کردار، ایشیاء میں پریس پر بڑھتی ہوئی سنسر شپ جیسے بیسیوں دلچسپ موضوعات پر پانچ روز تک مکالمہ جاری رہا۔ ہر سال کتاب میلے پر جرمن پبلشنگ ایسوسی ایشن کی جانب سے ادیبوں کو انعامات بھی دیے جاتے ہیں، اور ہر انعام کے لیے علیحدہ تقریب منعقد کی جاتی ہے۔
16 اکتوبر کو افریقی ادب کا انعام سینیگال کے ایک ادیب کو دیا گیا۔ اس موقع پر ان کی تصنیف پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ کتاب میلے کا اختتام اتوار کے روز جرمن امن انعام (جرمن پیس پرائز) پر ہوا، جس کے لیے ہر سال تاریخی عمارت پاولس کیرچے میں ایک عظیم تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ اس سال یہ انعام جرمن مؤرخ کارل شلوگل کو دیا گیا۔
1976 سے ہر سال کتاب میلے میں کسی نہ کسی ملک کو خصوصی حیثیت دی جاتی ہے۔ اس سال یہ مقام فلپائن کو حاصل تھا، جبکہ 2026 کے لیے چیک جمہوریہ کا اعلان کیا گیا ہے، اور کتاب میلہ سات سے گیارہ اکتوبر تک منعقد ہوگا۔
اس بین الاقوامی کتاب میلے میں لگنے والے چار ہزار تین سو پچاس اسٹالز میں پاکستان سے بھی دو اسٹال موجود تھے۔ جہلم سے ناشر عامر شاہد جو بک کارنر کے نام سے ادارہ چلاتے ہیں، انہوں نے اپنے ادارے کی شائع کردہ کتب — جو زیادہ تر اردو میں تھیں — نمائش کا حصہ بنائیں۔
ورلاگ دیر اسلام کے نام سے جماعت احمدیہ نے جرمن و دیگر زبانوں میں اسلامی لٹریچر اپنے اسٹال پر رکھا۔ نوجوان حافظ لقمان احمد نے بتایا کہ سب سے زیادہ طلب قرآنِ کریم کے جرمن ترجمہ کی ہے۔ یہ ترجمہ 1954 میں شائع کیا گیا تھا اور 1967 سے ہم اسے اس نمائش میں پیش کر رہے ہیں۔ اس اسٹال پر آنے والوں کے نام خطاطی میں لکھ کر بطور تحفہ دیے جا رہے تھے، جنہیں لوگ نہ صرف خوشی سے قبول کر رہے تھے بلکہ اپنے اہلِ خانہ کے نام بھی لکھوا کر لے جا رہے تھے۔
فرینکفرٹ بین الاقوامی کتاب میلہ 2025ء میں ڈیجیٹل اشاعت (ڈیجیٹل پبلشنگ)، مصنوعی ذہانت (مصنوعی عقل) اور آڈیو کتب کے مستقبل پر خصوصی توجہ دی گئی۔ "اشاعت کا مستقبل” کے عنوان سے منعقدہ مرکزی سیمینار میں مختلف ممالک کے ماہرین نے گفتگو کرتے ہوئے اس امر پر روشنی ڈالی کہ کس طرح مصنوعی ذہانت، برقی کتب اور پوڈکاسٹس کتابی دنیا کو نئی سمتوں میں لے جا رہے ہیں۔
جرمن وزیرِ ثقافت کلاؤڈیا روتھ نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ:
"کتاب علم، امن اور آزادیِ اظہار کا ستون ہے، اور آج کے دور میں ہمیں اسے نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ رکھنا ہوگا۔”
اس سال بچوں کے ادب اور ماحولیاتی تحفظ پر مبنی موضوعات کو بھی نمایاں حیثیت حاصل رہی۔ معروف بین الاقوامی اداروں جیسے پینگوئن رینڈم ہاؤس، ہارپرکالنز، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور کیمبرج یونیورسٹی پریس نے اپنی نئی مطبوعات کے ساتھ بھرپور شرکت کی۔ اس موقع پر ایک نیا "گرین پبلشنگ پویلین” بھی قائم کیا گیا، جہاں پائیدار اشاعت اور ماحول دوست پرنٹنگ کے جدید طریقوں کی نمائش کی گئی۔

