کوئٹہ (19 دسمبر): وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان پولیس نے مشکل ترین حالات میں جانوں کا نذرانہ دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ریاستِ پاکستان کمزور نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط، توانا اور ناقابلِ تسخیر ہے۔ پاکستان کی سلامتی، استحکام اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں اور اس کے تحفظ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے، بالخصوص پولیس فورس، صفِ اوّل کا کردار ادا کر رہی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ میں بلوچستان پولیس کی 104 ویں پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان محمد طاہر خان، کمانڈنٹ پولیس ٹریننگ کالج شہزاد اکبر اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان پولیس محض ایک ادارہ نہیں بلکہ پاکستان کے آئینی وجود کی علامت اور عوام کے اعتماد کی محافظ ہے۔ انہوں نے پولیس ٹریننگ کالج پر ہونے والے دہشت گرد حملے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس سانحے میں کیپٹن آفریدی سمیت بہادر جوانوں اور کمانڈوز کی قربانیاں ریاست کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کا مقصد اس اکیڈمی کو بند کرنا تھا، مگر آج یہی اکیڈمی بہادر بیٹوں اور دلیر بیٹیوں کو غیر معمولی عزم، حوصلے اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ تیار کر رہی ہے۔ پاس آؤٹ ہونے والے جوانوں کی کارکردگی نے دہشت گردوں کے خواب چکنا چور کر دیے ہیں اور دنیا کے سامنے ریاست کی مضبوطی واضح کر دی ہے۔
میر سرفراز بگٹی نے واضح پیغام دیتے ہوئے کہا کہ جو عناصر بندوق کے زور پر بلوچستان کے عوام پر اپنا نظریہ مسلط کرنا چاہتے ہیں یا پاکستان کو توڑنے کی بات کرتے ہیں، ان کی تمام کوششیں ہمیشہ ناکام رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ریاستِ پاکستان تھکنے کے لیے نہیں بنی اور اس کے محافظ ہر ناپاک ارادے کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہیں گے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جو بھٹکے ہوئے افراد آئینِ پاکستان کے دائرے میں واپس آنا چاہیں، ان کے لیے ریاست کے دروازے کھلے ہیں، تاہم جو بندوق کے ذریعے اپنا نظریہ مسلط کرنے پر اصرار کریں گے، ریاست ان سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی و وفاقی حکومت، بلوچستان پولیس، مسلح افواج اور فرنٹیئر کور مل کر دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں اور کسی صورت دہشت گردی کے نظریے کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
ماضی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دہشت گردوں نے سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی، پولیس ٹریننگ سینٹر، پولیس لائنز اور آئی جی پولیس کے گھر کو نشانہ بنایا، مگر آج یہ تمام ادارے پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں، اور ریاست چٹان کی طرح کھڑی ہے۔
انہوں نے لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ قیادت کا کام مقبول نہیں بلکہ درست فیصلے کرنا ہوتا ہے۔ پورے بلوچستان کو بی ایریا سے اے ایریا میں تبدیل کرنا ایک بڑا اور تاریخی فیصلہ ہے جس سے پولیس پر مزید ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
پاس آؤٹ ہونے والے جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ امن و امان کے قیام، دہشت گردی اور منظم جرائم کے خلاف جدوجہد میں بلا تفریق عوام کی خدمت کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔
وزیر اعلیٰ نے پولیس کے لیے سہولیات کی فراہمی کا اعلان کرتے ہوئے خصوصی فیڈر، سولر سسٹم، سڑکوں کی مرمت، گراؤنڈ میں آسٹرو ٹرف بچھانے، ماڈل گراؤنڈ کی تعمیر اور 60 کے بجائے 80 فیملی کوارٹرز بنانے کا اعلان بھی کیا۔
انہوں نے پولیس جوانوں کو رشوت، بدعنوانی اور ذاتی مفاد سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ وردی کی اصل طاقت کردار ہے اور اس کی حرمت پر کبھی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
وزیر اعلیٰ نے اپنا خطاب علامہ اقبالؒ کے اس شعر پر ختم کیا:
"اے طائرِ لاہوتی! اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی”

