تحریر : سلیم جٹ
گزشتہ چند ہفتوں میں خطۂ جنوبی ایشیا اور اس کے گرد پھیلا سفارتی و عسکری منظرنامہ اس قدر تیزی سے بدل رہا ہے کہ ایک لمحے کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے شطرنج کی بساط پر بیک وقت کئی مہروں کو چلا دیا ہو۔
اسرائیلی وزیراعظم کا یہ اعتراف کہ حالیہ پاک-بھارت تنازع میں اسرائیلی ہتھیار استعمال ہوئے، نہ صرف عسکری معاملات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اسرائیل کی اسلحہ پالیسی اور اس کے گاہک اب صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں۔ اسرائیلی عہدیداروں کی بھارت میں موجودگی اور مبینہ سرحد پار گروپوں کے خلاف تعاون پر غور اس بات کی علامت ہے کہ نئی دہلی اور تل ابیب کا عسکری تعلق مزید گہرا ہونے والا ہے۔دوسری طرف، نریندر مودی کا چین کا مجوزہ دورہ ایک اور کہانی سناتا ہے۔ ایک طرف چین اور بھارت کی سرحدی کشیدگی، دوسری طرف مودی کا بیجنگ جانا — یہ یا تو ایک وقتی اسٹریٹجک مصلحت ہے یا پھر بڑے کھیل کا حصہ۔ اسی دوران ولادیمیر پیوٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ ملاقات متحدہ عرب امارات میں ہونے کی خبریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات کے ترازو میں اس خطے کا وزن بڑھ رہا ہے۔پیوٹن کا ممکنہ بھارتی دورہ، امریکی مصنوعات پر عائد 50 فیصد ٹیرف، اور 21 دن کی مذاکراتی کھڑکی… یہ سب محض اقتصادی معاملات نہیں بلکہ ایک دباؤ کی پالیسی کا حصہ ہیں۔ واشنگٹن چاہتا ہے کہ بھارت دفاعی معاہدوں میں آگے بڑھے، امریکی مصنوعات کے معیار کی سخت جانچ کو نرم کرے اور ایک "بڑا خریدار” بنے۔روس کے ساتھ بھارت کا تیل اور جنگی طیاروں کا معاہدہ تقریباً مکمل ہونا اس شطرنج کی بساط پر ماسکو کا مضبوط قدم ہے۔ اس کے ساتھ ہی راجستھان میں 11، 12 اور 13 اگست کو ہونے والی فضائی مشقیں محض عسکری مظاہرہ نہیں، بلکہ ایک واضح پیغام بھی ہیں۔ پاکستان کی فضائیہ کی حالیہ Combat Air Patrol سرگرمیاں — جو معمول کی ریہرسل سے مختلف تھیں — یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اسلام آباد بھی حالات کو محض تماشائی بن کر نہیں دیکھ رہا۔
خطے کا منظرنامہ اس وقت تین بڑے دھاروں میں بٹا ہوا ہے: عسکری تیاری، سفارتی چالیں اور اقتصادی دباؤ۔ اسرائیلی اسلحہ، روسی طیارے، امریکی ٹیرف، اور چینی ملاقاتیں — یہ سب ایک آنے والے طوفان کا پیش خیمہ لگتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس طوفان کا مرکز کہاں ہو گا اور کون اس کے جھکڑ میں سب سے زیادہ متاثر ہو گا؟
فی الحال، یہ شطرنج کی بازی جاری ہے اور ہر مہرہ اپنی چال چل رہا ہے۔ لیکن شطرنج اور سیاست میں ایک فرق ضرور ہے — یہاں کبھی کبھی کھیل ختم ہونے سے پہلے ہی تختہ الٹ جاتا ہے۔