آئینی عدالت کا تصور میثاقِ جمہوریت سے — پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی 2006ء کی تاریخی تجویز

Screenshot 20251107 130429


آئینی عدالت کے قیام کا خیال سب سے پہلے 2006ء میں میثاقِ جمہوریت کے تحت پیش کیا گیا تھا، جس پر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائدین محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف نے لندن میں دستخط کیے تھے۔
اس تاریخی معاہدے میں دونوں جماعتوں نے ملک میں جمہوری نظام کے استحکام، اداروں کے درمیان اختیارات کی وضاحت، اور آئینی تنازعات کے حل کے لیے ایک "آئینی عدالت” (Constitutional Court) کے قیام پر اتفاق کیا تھا۔
میثاقِ جمہوریت کی شق نمبر 32 میں واضح طور پر درج ہے کہ "آئینی عدالت” آئین کی تشریح، وفاق و صوبوں کے درمیان تنازعات اور اداروں کے درمیان حدود کے تعین کے معاملات دیکھے گی۔ اس عدالت کے جج سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں میں سے منتخب کیے جائیں گے۔
قانونی ماہرین کے مطابق یہ تصور یورپی طرزِ عدلیہ سے متاثر تھا، جہاں جرمنی، اٹلی اور ترکی جیسے ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں۔ تاہم پاکستان میں اس تجویز کو آج تک عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔
ذرائع کے مطابق 2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے دوران اس نکتے پر غور کیا گیا، مگر سیاسی اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث آئینی عدالت کا قیام ممکن نہ ہو سکا۔
حالیہ برسوں میں بعض قانونی و سیاسی حلقوں نے ایک بار پھر اس تجویز کو زندہ کرنے پر زور دیا ہے تاکہ آئینی معاملات کو سیاسی تنازعات سے الگ رکھ کر شفاف اور مؤثر عدالتی نظام قائم کیا جا سکے۔

متعلقہ پوسٹ