جارحانہ بلے باز سمیر کا مزاج ’ٹھنڈا اور خاموش‘ ہے: والد

390965 191469130


پاکستانی کرکٹر سمیر منہاس  کی حال ہی میں انڈیا کی انڈر 19 ٹیم کے خلاف جارحانہ بیٹنگ کے چرچے ہیں تاہم ان کے والد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ سمیر ’ٹھنڈے اور خاموش‘ مزاج کے نوجوان ہیں۔

دبئی میں گذشتہ اتوار کو کھیلے گئے ایشین کرکٹ کونسل انڈر 19 ایشیا کپ کے فائنل میں پاکستان نے روایتی حریف انڈیا کو 191 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔

یہ فتح نہ صرف سکور لائن کے اعتبار سے تاریخی رہی بلکہ ایک نوجوان بیٹر کی شاندار کارکردگی نے بھی اسے یادگار بنا دیا۔

پاکستان کی جانب سے اوپنر سمیر منہاس نے فائنل میں شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 113 گیندوں پر 172 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔ سمیر منہاس پورے ٹورنامنٹ میں پاکستان کے ٹاپ سکورر بھی رہے۔

سمیر کے والد کاشف منہاس کے مطابق ان بیٹے کا مزاج بچپن ہی خاموش اور دھیما رہا ہے۔

’یہ اپنے بڑے بھائی عرفات کی طرح غصے کا تیز نہیں، بلکہ ٹھنڈے اور خاموش مزاج کا ہے۔ اسی خاموشی میں رہتے ہوئے اس نے اتنا بڑا کارنامہ کر دکھایا ہے۔‘

’انڈیا کے خلاف میچ میں پاکستان کی جیت پر میری آنکھوں سے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ میری خوشی اسی میں ہے کہ میرا ملک خوش ہے، میرے لوگ خوش ہیں۔ پچھلے دو دنوں سے سمیر کی وجہ سے اس ملک میں خوشیاں ہی خوشیاں آئی ہیں۔‘

19 سالہ سمیر منہاس، پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹر عرفات منہاس کے چھوٹے بھائی ہیں۔ عرفات منہاس 2023 اور 2024 میں ہانگ کانگ، افغانستان، بنگلہ دیش اور زمبابوے کے خلاف پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے سمیر منہاس کے والد کاشف منہاس نے بیٹے کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا۔

سمیر کی شاندار کارکردگی پر ان کا کہنا تھا کہ اس لیول پر یہ سمیر کا پہلا تجربہ تھا جسے دیکھتے ہوئے اب انہیں اپنے تینوں بیٹوں کا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کا تیسرا بیٹا عبداللہ  بھی اس وقت ملتان ریجن انڈر 15 میں کھیل رہا ہے۔

’منہاس برادران کا جو مستقبل میں دیکھ رہا ہوں، مجھے یقین ہے کہ وہ اس ملک کے لیے بہت کچھ کریں گے۔‘

کاشف منہاس نے اپنی زندگی کے ادھورے خوابوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھنا ان کا خواب تھا۔

’میرے والد کبھی اس بات پر راضی نہیں ہوئے کہ میں کرکٹر بنوں۔ مجھے مجبوراً کرکٹ چھوڑنی پڑی، لیکن جب میرے بچے 9، 10 سال کے تھے تو میں نے محسوس کیا کہ یہ عام بچے نہیں ہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے کرکٹ کے چھوٹے ایٹم بم گھر میں پھر رہے ہوں۔‘





Source link

متعلقہ پوسٹ