UK Signals Readiness to Recognize Palestinian State if Israel Fails to Ceasefire in Gaza
برطانوی وزیر اعظم سر کیئر اسٹارمر کے حالیہ بیان نے بین الاقوامی سطح پر ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نے فوری طور پر جنگ بندی پر آمادگی ظاہر نہ کی اور غزہ میں جاری "ناقابلِ برداشت” انسانی بحران کا سدباب نہ کیا تو برطانیہ فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی جانب قدم اٹھائے گا۔ یہ بیان محض ایک وقتی سفارتی دباؤ کا اظہار نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل تاریخی پس منظر، سیاسی پیچیدگیاں، اور عالمی طاقتوں کے بدلتے مؤقف پوشیدہ ہیں۔
فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا معاملہ کئی دہائیوں سے عالمی ضمیر پر بوجھ بن کر موجود ہے۔ سنہ 1948 میں اسرائیل کے قیام اور فلسطینی علاقوں کی جبری تقسیم کے بعد سے اب تک، لاکھوں فلسطینی بے وطن، مہاجر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور خاص طور پر غزہ کی پٹی مسلسل اسرائیلی فوجی قبضے، بستیوں کی توسیع، اور بارہا جنگوں کا نشانہ بنے رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی ایک پوری نسل ایسی پیدا ہو چکی ہے جس نے کبھی آزادی یا بنیادی انسانی حقوق کا ذائقہ تک نہیں چکھا۔
برطانیہ، جو کہ اسرائیل کے قیام میں تاریخی کردار ادا کر چکا ہے، ہمیشہ سے اس مسئلے میں ایک نازک توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ ایک طرف وہ اسرائیل کا پرانا اتحادی رہا ہے، اور دوسری طرف فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں تسلیم کرتا ہے۔ مگر عملی طور پر برطانیہ نے ہمیشہ اس مسئلے کو "دو ریاستی حل” کے نظریاتی جملے میں لپیٹ کر سفارتی سطح پر مؤخر رکھا۔
گزشتہ دو دہائیوں میں صورتحال نے کئی سنگین موڑ لیے۔ سن 2008، 2012، 2014، اور حالیہ 2023-24 کے دوران غزہ پر اسرائیلی حملوں میں ہزاروں شہری جاں بحق یا زخمی ہوئے، بنیادی ڈھانچے تباہ ہوئے، اور انسانی بحران اپنی انتہاؤں کو چھونے لگا۔ یورپی ممالک، جو پہلے اسرائیلی بیانیے کو قبول کرتے رہے، اب ان کے رویے میں بھی تبدیلی کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ اسپین، آئرلینڈ، اور ناروے پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں، جبکہ دیگر کئی ممالک اس پر غور کر رہے ہیں۔
اسی تناظر میں، سر کیئر اسٹارمر کا بیان ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق، اگر اسرائیل نے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کو جاری رکھا، تو برطانیہ مجبور ہو کر فلسطین کو تسلیم کرے گا۔ اگرچہ یہ ایک مشروط اعلان ہے، تاہم اس میں واضح اشارہ موجود ہے کہ برطانیہ اب مزید خاموشی اختیار کرنے کو تیار نہیں۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں انسانی المیہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ، ریڈ کراس، اور دیگر بین الاقوامی ادارے بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ اگر فوری جنگ بندی نہ ہوئی تو پورا خطہ بدترین قحط، وبا، اور داخلی بغاوت کا شکار ہو سکتا ہے۔
تاہم یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا برطانیہ واقعی فلسطین کو تسلیم کرے گا؟ یا یہ محض ایک سفارتی حربہ ہے؟ برطانوی سیاست میں اندرونی طور پر اس مسئلے پر تقسیم موجود ہے۔ ایک طرف لیبر پارٹی کے بائیں بازو کے اراکین فلسطینی حمایت کے حق میں کھل کر بولتے ہیں، تو دوسری جانب بعض اعتدال پسند اور دائیں بازو کے عناصر اسرائیل کے ساتھ دیرینہ تعلقات کو فوقیت دیتے ہیں۔
اس بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر اسرائیل کو اس کے رویے پر اب کھلی چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔ مغربی طاقتیں، جو پہلے اسرائیلی بیانیے کو آنکھ بند کر کے قبول کرتی تھیں، اب فلسطینی مظلومیت کو نظر انداز کرنا اخلاقی طور پر ممکن نہیں سمجھتیں۔ خاص طور پر نوجوان نسل، سوشل میڈیا پر ہونے والے انکشافات، اور عوامی دباؤ نے عالمی سیاست دانوں کو نئے فیصلوں کی طرف مائل کیا ہے۔
اگر برطانیہ نے عملی طور پر فلسطین کو تسلیم کر لیا تو یہ ایک تاریخی قدم ہو گا جو اسرائیل پر سفارتی، تجارتی، اور اخلاقی دباؤ میں اضافہ کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ دوسرے یورپی ممالک کے لیے بھی ایک مثال بن سکتا ہے کہ وہ بھی اسی راہ پر چلیں۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے اس اقدام پر شدید ردعمل کا امکان ہے، جس سے سفارتی تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
آنے والے دنوں میں عالمی سیاست کا مرکز شاید ایک بار پھر مشرق وسطیٰ بن جائے، جہاں طاقت کا توازن، عالمی اتحادوں کی نوعیت، اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کی غیر جانبداری کو ایک نئی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔