برطانیہ: فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ حماس کو انعام نہیں، تنقید مسترد

نیویارک / لندن (رائٹرز + اے ایف پی. مانیٹرنگ ڈیسک)  برطانوی حکومت نے بدھ کے روز اس تنقید کو مسترد کر دیا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اس کا منصوبہ دراصل حماس کو انعام دینے کے مترادف ہے۔ لندن کا مؤقف ہے کہ یہ اقدام فلسطینی عوام، بالخصوص غزہ میں قحط کا سامنا کرنے والے بچوں کے لیے اٹھایا جا رہا ہے۔یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب فلسطینی صدر محمود عباس اور برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر کے درمیان 25 ستمبر 2024 کو اقوام متحدہ میں دوطرفہ ملاقات ہوئی۔برطانوی وزیرِ اعظم سٹارمر نے اپنے حالیہ خطاب میں کہا ہے کہ اب وقت آ چکا ہے کہ دو ریاستی حل کو تسلیم کیا جائے، اور اگر اسرائیل نے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے تو برطانیہ ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔اسرائیل کی جانب سے شدید ردعملسٹارمر کے اس اعلان پر یروشلم میں شدید ناراضی کا اظہار کیا گیا، جہاں اسرائیلی حکام نے اسے حماس کو انعام اور 2023 کے قیدی متاثرین کے ساتھ زیادتی قرار دیا۔تاہم برطانوی وزیر برائے رسل و رسائل، ہیڈی الیگزینڈر، نے تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا:> "یہ حماس کے لیے کوئی انعام نہیں۔ حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ یہ اقدام ان بچوں کے لیے ہے جنہیں ہم غزہ میں بھوکا مرتے دیکھ رہے ہیں۔”انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ اسرائیل پر دباؤ بڑھا رہا ہے تاکہ غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل ممکن ہو سکے۔غزہ میں غذائی قلت اور قحط کی خبریں مسلسل عالمی توجہ حاصل کر رہی ہیں، اور اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے متنبہ کیا ہے کہ فوری اقدامات نہ کیے گئے تو وسیع پیمانے پر اموات کا خطرہ ہے۔سٹارمر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مغربی کنارے کا کوئی الحاق نہیں ہو گا اور برطانیہ خطے میں طویل المدتی امن عمل کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔

متعلقہ پوسٹ