احسان بھولنے کی سیاست: پاک افغان تعلقات کا نیا موڑ

Fazal Khokhar scaled

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ ایک نازک دھاگے سے بندھے رہے ہیں—ایک ایسا دھاگہ جو مذہب، تاریخ، ثقافت اور جغرافیہ سے مضبوط ہوتا رہا، لیکن سیاست اور خودغرضی کی تیز دھار اسے بار بار کاٹتی رہی۔ آج جب دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی ایک بار پھر خونریز صورت اختیار کر چکی ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دشمنی کہاں سے جنم لیتی ہے؟ اور کیوں افغانستان بار بار پاکستان کے احسانات کو فراموش کر دیتا ہے؟

تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ہمیشہ بڑے بھائی کا کردار ادا کیا۔ ۱۹۷۹ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا، پاکستان نے نہ صرف اپنے دروازے بلکہ اپنا دل بھی کھول دیا۔ لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی گئی، انہیں خوراک، علاج اور روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے۔ اُس وقت دنیا کا کوئی دوسرا ملک اس پیمانے پر انسانی ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کر رہا تھا۔ پاکستان نے اپنی معیشت اور سماجی ڈھانچے پر مہاجرین کا بوجھ برداشت کیا، صرف اس امید پر کہ ایک دن افغانستان میں امن لوٹ آئے گا اور بھائی چارہ مضبوط ہوگا۔

اسی دوران پاکستان نے عالمی طاقتوں کے دباؤ اور اپنے قومی مفاد کے تحت افغان جہاد میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ مجاہدین کو سرحدی تربیت، اسلحہ، اور لوجسٹک سپورٹ ملی۔ پاکستان کی سرزمین سے وہ تحریک چلی جس نے آخرکار سوویت افواج کو پسپا کیا۔ مگر سوویت انخلا کے بعد افغانستان خانہ جنگی میں الجھ گیا اور پاکستان ایک بار پھر ثالث اور معاون کے طور پر میدان میں رہا۔ کابل کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ہر کوشش پاکستان نے کی—کبھی تجارتی راہداری کے ذریعے، کبھی تعلیمی وظائف اور کبھی انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت۔

تاہم نائن الیون کے بعد جب عالمی منظرنامہ بدلا، پاکستان ایک نئی آزمائش میں داخل ہوا۔ امریکہ کی سربراہی میں افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان کو دہشت گردی، بداعتمادی اور داخلی انتشار کا سامنا ہوا۔ لاکھوں مہاجرین ابھی تک واپس نہیں جا سکے۔ پاکستان کی سرحدی پٹی دہشت گردی کا شکار بنی، ہزاروں فوجی اور شہری جان سے گئے، مگر افغان حکومتوں نے پاکستان پر الٹا الزام تراشی کی۔ کبھی سرحد پار مداخلت کا الزام، کبھی طالبان کی مدد کا، کبھی پناہ گاہوں کا طعنہ۔ وہی پاکستان جس نے افغانستان کے لیے اپنی جان نچھاور کی، آج اس کے لیے "غیر قابلِ اعتماد ہمسایہ” کہلانے لگا۔

طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی توقع تھی کہ کابل اپنی پالیسیوں میں شکر گزاری اور تعاون کا جذبہ دکھائے گا۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ افغان طالبان نے پاکستان کو کسی اخلاقی یا سیاسی رعایت سے نوازنے کے بجائے خودمختاری کے نام پر سرحدی جھڑپوں کو بڑھا دیا۔ دہشت گرد گروہوں کو افغان سرزمین پر جگہ ملنے لگی، ٹی ٹی پی نے وہاں سے پاکستانی علاقوں پر حملے شروع کیے۔ کابل حکومت نے سرحدی انتظام میں رکاوٹیں ڈالیں، بارڈر فینسنگ پر تنازع کھڑا کیا، اور عوامی سطح پر پاکستان مخالف بیانیہ مضبوط کیا۔

یہ روش صرف سیاسی ضد یا وقتی تناؤ نہیں بلکہ کئی گہرے عوامل کا نتیجہ ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ افغان طالبان اپنی خودمختاری کو حد سے زیادہ حساسیت سے لیتے ہیں۔ وہ پاکستان کو اپنا مددگار نہیں بلکہ ایک سابقہ آقا سمجھتے ہیں، جس کی مداخلت سے وہ نجات چاہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ افغانستان کی اندرونی سیاست میں پاکستان مخالف بیانیہ عوامی تائید حاصل کرنے کا آسان ذریعہ بن چکا ہے۔ تیسری وجہ علاقائی طاقتوں کی مداخلت ہے — بھارت، ایران، روس، حتیٰ کہ چین — جو اس کھیل میں اپنے اپنے مفاد کی چالیں چل رہے ہیں۔

پاکستان کے لیے یہ صورتحال اس لیے بھی تلخ ہے کہ وہ ہمیشہ “اسلامی بھائی چارے” کے جذبے کے تحت فیصلے کرتا رہا۔ مگر افغان قیادت نے ہر بار قوم پرستی، خودمختاری اور مفاد پرستی کے ترازو میں تعلقات کو تولنے کی کوشش کی۔ یوں احسان کا بدلہ احسان سے نہیں بلکہ الزام سے دیا گیا۔

افغانستان کی اس "ناشکری” کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں کی نئی نسل، جو جنگ و جدل میں پلی بڑھی، پاکستان کے کردار کو مثبت زاویے سے نہیں دیکھتی۔ انہیں اپنی تباہی کا ذمےدار مغرب کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی دکھائی دیتا ہے۔ اور یہی تاثر آج کی افغان پالیسی میں جھلک رہا ہے — ایک ایسا تاثر جو حقیقت سے زیادہ بیانیے کی پیداوار ہے۔

پاکستان کے لیے اب وقت آ چکا ہے کہ وہ اپنے قومی مفاد کو جذباتی رشتوں کے بجائے عملی حکمت سے دیکھے۔ افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات ضرور قائم رہنے چاہئیں، لیکن اس رشتے کو یک طرفہ قربانی کے اصول پر نہیں چلایا جا سکتا۔ احسان وہی معتبر ہوتا ہے جسے یاد رکھا جائے، اور اگر یادداشت کمزور ہو جائے، تو تاریخ ہمیشہ یاد دلاتی ہے کہ کون دوست تھا، کون محسن، اور کون صرف موقع پرست۔

متعلقہ پوسٹ