پاکستان میں ٹریفک قوانین پر جاری حالیہ کریک ڈاؤن نے اچانک پورے سماج کو اس تلخ حقیقت کے روبرو کر دیا ہے کہ ہم کئی دہائیوں تک ایسے بنیادی اصولوں سے بھی غافل رہے جن پر دنیا کی مہذب قومیں ابتدا سے عمل کرتی آئی ہیں۔ عالمی شہروں میں ٹریفک نظم و ضبط صدیوں سے تمدن کا لازمی جزو سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہاں لائسنس کے بغیر ڈرائیونگ، عمر میں کمی کے باوجود گاڑی چلانا، سفر کے دوران حفاظتی اصولوں سے غفلت، یا گاڑی کے دھواں چھوڑنے جیسے امور نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ تہذیبی زوال کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مملکتِ خداداد پاکستان میں قیامِ ملک کے تقریباً ساڑھے سات دہائیوں بعد وہ قوانین، جنہیں ریاستوں کی بنیاد بنتے ہی نافذ ہو جانا چاہیے تھا، اب ایک بھرپور حکومتی مہم کے ذریعے نافذ کیے جا رہے ہیں۔
پنجاب میں ٹریفک قوانین کی اصلاحات تقریباً ساٹھ برس بعد متعارف کرائی گئی ہیں، جن میں سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اب بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانا یا کم عمر بچے کو سڑک پر گاڑی دینے پر صرف جرمانہ نہیں بلکہ باقاعدہ ایف آئی آر اور بعض صورتوں میں قید تک ہوسکتی ہے۔ چند دنوں کی کارروائی میں لاکھوں روپے جرمانے، ہزاروں مقدمات، سینکڑوں گرفتاریاں، اور گاڑیوں کی بڑی تعداد ضبط ہونے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اس نے پہلی بار شہریوں کو یہ احساس دلایا ہے کہ ٹریفک قانون محض احتیاط کی ہدایت نہیں بلکہ ریاست کا وہ عصا ہے جسے برسوں نظر انداز کیا جاتا رہا۔ کراچی میں صورتحال اس سے کچھ مختلف مگر اہم ہے۔ وہاں جدید اے آئی کیمروں کے ذریعے ای-چالان کا نظام ایک نیا باب کھول چکا ہے، جہاں چند ہی گھنٹوں میں ہزاروں چالان اور کروڑوں روپے جرمانے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کا اعلان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو موسمِ سرما میں بڑھتی سموگ کے تناظر میں ایک ناگزیر قدم ہے۔
اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ یہ سب کچھ پاکستان میں اتنے برس بعد کیوں ہوا تو اس کا جواب بھی کڑوا ہے، مگر حقیقت سے خالی نہیں۔ ہماری ریاست نے اپنے شہریوں کو قانون کا احترام سکھانے کے بجائے انہیں قوانین سے اوپر سمجھنے دیا۔ ٹریفک قوانین کو محض جرمانے کی رسیدوں تک محدود کر دیا گیا، تعلیم و شعور کو پسِ پشت ڈال دیا گیا، اور معاشرتی تربیت میں نظم و ضبط کا وہ عنصر جو ترقی یافتہ قوموں کی پہچان ہے، وہ کبھی ہماری ترجیح نہ بن سکا۔ دنیا کی ترقی یافتہ ریاستوں میں ٹریفک نظم و ضبط دراصل عام شہری کی عزتِ نفس کا محافظ ہوتا ہے۔ وہاں راستہ دینا، قطار کا احترام، پیدل چلنے والوں کی ترجیح، لائسنس حاصل کرنے کے لیے سخت تربیت، اور گاڑی کی فٹنس کو برقرار رکھنا، سب کچھ ریاست اور شہری دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ مگر پاکستان میں یہ احساس برسوں تک پیدا ہی نہ ہوسکا کہ ٹریفک قانون کی خلاف ورزی دراصل ریاستی نظم کی بے توقیری ہے۔
تعجب اس پر ہے کہ ایک اسلامی ریاست ہوتے ہوئے ہم نے ان بنیادی اصولوں کو بھی پسِ پشت ڈال دیا جن کی تعلیم اسلام نے چودہ سو برس پہلے دے دی تھی۔ اسلام میں قانون کی پابندی، نظم و ضبط، راستے کے حقوق، اور دوسروں کی حفاظت کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے راستوں کے آداب سکھاتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ راستوں پر بیٹھتے ہیں وہ اس کا حق ادا کریں؛ راستے کا حق سلام، نگاہِ نیچی رکھنا، ایذا نہ دینا، ظالم کو ظلم سے روکنا اور مظلوم کی مدد کرنا ہے۔ اس فرمان کے ذیل میں فقہا نے واضح کیا ہے کہ راستہ ہر اُس چیز سے پاک رکھا جائے جو دوسروں کو تکلیف دے۔ آج کی زبان میں کہا جائے تو تیز رفتاری، غلط سمت میں گاڑی چلانا، ہارن کا بے جا استعمال، دھواں چھوڑنا، یا خطرناک ڈرائیونگ—یہ سب راستے کی ایذا رسانی کے ذیل میں آتے ہیں۔ ایک اسلامی ریاست میں ٹریفک قانون محض انتظامی حکم نہیں ہوتا بلکہ اخلاقی اور دینی فریضہ بھی ہوتا ہے۔
یہ کیسا المیہ ہے کہ جن اصولوں کی بنیاد اسلام نے رکھی، جنہیں آنے والی امتوں نے تہذیب و قانون کی صورت میں اپنایا، ہم انہی اصولوں پر عمل کرنے میں سب سے پیچھے رہ گئے۔ دنیا نے صدیوں پہلے یہ طے کر لیا کہ راستے کی حفاظت شہری کی بنیادی ذمہ داری ہے، مگر ہم نے اسے معاشرتی کمزوری کے ایک ایسے دائرے میں قید کر دیا جہاں قانون نہ نافذ ہو سکا، نہ عزت پا سکا۔ ایک اسلامی ریاست کو تو اس معاملے میں دنیا کے لیے نمونہ ہونا چاہیے تھا، مگر ہمارے ہاں ٹریفک قوانین کو لاگو کرنے کا سفر آج بھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔
اس پس منظر میں پاکستان میں جاری موجودہ کریک ڈاؤن محض ایک انتظامی کارروائی نہیں بلکہ ایک سماجی بیداری کا موقع ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قانون وہ چھت ہے جو سب کو مساوی تحفظ دیتی ہے، اور شہری نظم و ضبط وہ ستون ہے جس کے بغیر کوئی ریاست مضبوط بنیادوں پر کھڑی نہیں رہ سکتی۔ اگر پاکستان اس کریک ڈاؤن کو مستقل مزاجی سے جاری رکھتا ہے، قوانین کو ہر شہری پر بلا امتیاز نافذ کرتا ہے، اور شعور کی سطح پر بھی اس کی ترویج کو ترجیح دیتا ہے، تو وہ دن دور نہیں جب سڑکیں واقعتاً محفوظ، شہری ذمہ دار، اور ریاست مضبوط ہو گی۔ لیکن اگر یہ مہم محض چند ہفتوں کی سختی اور چند لاکھ جرمانوں تک محدود رہی، اور سماجی تربیت کا عمل جاری نہ ہوا، تو ہم پھر وہیں کھڑے ہوں گے جہاں ہم برسوں سے کھڑے ہیں۔
قانون کے احترام، راستے کے حقوق اور اجتماعی نظم کی گفتگو کو ہم نے بہت دیر تک پسِ پشت رکھا ہے۔ اب وقت ہے کہ معاشرہ جانے کہ ٹریفک قانون صرف ایک چالان نہیں، ایک تہذیب ہے، اور ایک قوم کی پہچان بھی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کی صف میں باوقار کھڑا ہو تو سڑک پر پہلا قدم قانون کی پاسداری ہی ہے—وہی قدم جو مہذب دنیا نے بہت پہلے اٹھا لیا تھا اور جس کی طرف اسلام نے ہمیں آغاز ہی سے بلایا تھا۔

