پی آئی اے کی نجکاری: قومی بوجھ سے قومی مفاد تک

images 8 2

تحریر و اہتمام محمد سلیم سے 🙂


دنیا کی تاریخ میں کئی قومی ادارے ایسے رہے ہیں جو ایک وقت میں ریاستی فخر سمجھے جاتے تھے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ناقص انتظام، سیاسی مداخلت اور مالی بے ضابطگیوں کے باعث وہی ادارے قومی خزانے پر بوجھ بن گئے۔ معاشیات کی زبان میں ایسے اداروں کو “سفید ہاتھی” کہا جاتا ہے — یعنی ایسا اثاثہ جسے پالنے کی قیمت اس کے فائدے سے کہیں زیادہ ہو۔
بھارت کی ایئر انڈیا اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ کئی دہائیوں تک ایئر انڈیا خسارے کی دلدل میں دھنسی رہی۔ صرف 2009 سے 2020 کے درمیان یہ ایئرلائن مسلسل خسارے میں رہی اور بھارتی حکومت کو ہر سال اربوں ڈالر کے بیل آؤٹس دینے پڑے۔ ناقدین اسے قومی وقار کا مسئلہ بنا کر پیش کرتے رہے، مگر 2022 میں بھارتی حکومت نے تمام تر تنقید کو نظرانداز کرتے ہوئے ایئر انڈیا کو ٹاٹا گروپ کے حوالے کر دیا۔
نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ آج ایئر انڈیا اب بھی ایک بھارتی کمپنی ہے، مگر نجی انتظام کے تحت نہ صرف سنبھل چکی ہے بلکہ عالمی مقابلے میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ جدید طیاروں کی خریداری، بہتر سروس، اور بین الاقوامی روٹس کی توسیع اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسئلہ ملکیت کا نہیں، انتظام کا تھا۔ سب سے اہم بات یہ کہ بھارتی حکومت جو پیسہ پہلے بیل آؤٹس پر خرچ کرتی تھی، اب وہی وسائل ترقیاتی منصوبوں پر لگائے جا رہے ہیں۔
اسی طرح برطانیہ کی برٹش ایئرویز بھی 1970 اور 1980 کی دہائی میں قومی خزانے پر ایک بڑا بوجھ بن چکی تھی۔ بالآخر 1987 میں برطانوی حکومت نے ایک مشکل مگر دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے اس کی نجکاری کر دی۔ نجکاری کے بعد برٹش ایئرویز نہ صرف منافع بخش ادارہ بنی بلکہ آج دنیا کی بڑی ایئرلائنز میں شمار ہوتی ہے۔ نجکاری نے اسے قومی بوجھ سے نکال کر ایک عالمی برانڈ میں تبدیل کر دیا، مگر اس کی شناخت آج بھی ایک “برٹش” کمپنی کی ہی ہے۔
اب اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (PIA) بھی کبھی قومی فخر ہوا کرتی تھی۔ مگر بدقسمتی سے وقت کے ساتھ یہ ادارہ بھی سفید ہاتھی بن گیا۔ ایک ایسا ملک جو قرض لے کر اپنے عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرتا ہے، وہ ہر سال اربوں روپے اس ہاتھی کو پالنے پر خرچ کرتا رہا۔
صرف گزشتہ پانچ برسوں کے اعداد و شمار ہی دیکھ لیں:
2019 میں تقریباً 52 ارب روپے کا خسارہ
2020 میں کووِڈ کے باعث 34 ارب روپے
2021 میں 25 ارب روپے
2022 میں ایندھن کی قیمتوں اور انتظامی بحران کے سبب 67 ارب روپے
2023 میں کاغذی منافع دکھایا گیا، مگر آپریشنل خسارہ برقرار رہا، اور 2024 بھی کوئی نمایاں بہتری نہ لا سکا
ہر حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کی بات تو کی، مگر نام نہاد تنقید، سیاسی نعروں اور “قومی وقار” کے دباؤ کے آگے خاموشی اختیار کر لی۔ عمران خان کے دور حکومت میں بھی نجکاری کمیشن کے ساتھ سنجیدہ مشاورت ہوئی، مگر عملی قدم نہ اٹھایا جا سکا۔
بالآخر موجودہ حکومت نے ایک بہادرانہ اور حقیقت پسندانہ فیصلہ کرتے ہوئے پی آئی اے کو نجکاری کے ذریعے ایک پاکستانی سرمایہ کار کے حوالے کر دیا۔ یہ فیصلہ جذباتی نعروں کے برعکس معاشی حقائق پر مبنی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ جس طرح ایئر انڈیا نجکاری کے بعد بھی بھارتی ہے، اور برٹش ایئرویز نجکاری کے باوجود برٹش کہلاتی ہے، اسی طرح پی آئی اے بھی پاکستان کی ایئرلائن رہے گی۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ اس کا انتظامی ڈھانچہ پیشہ ورانہ اور نجی ہاتھوں میں ہوگا، جہاں فیصلے سیاسی مصلحت کے بجائے کاروباری اصولوں پر ہوں گے۔
البتہ اگر پی آئی اے کسی غیر ملکی کمپنی کو فروخت کی جاتی تو اس کے نام سے “پی” ختم ہو جاتا، جو یقیناً عوامی سطح پر دکھ اور تشویش کا باعث بنتا۔ مگر ایک پاکستانی سرمایہ کار کے ذریعے نجکاری اس خدشے کو بھی ختم کرتی ہے۔
اصل سوال یہ نہیں کہ پی آئی اے نجی ہوئی یا نہیں، اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان مزید سفید ہاتھی پالنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر یہ فیصلہ وقتی تنقید کے باوجود قومی مفاد میں ایک ناگزیر قدم ہے۔
قومیں جذبات سے نہیں، فیصلوں سے بنتی ہیں۔ اور بعض اوقات تلخ فیصلے ہی روشن مستقبل کی بنیاد بنتے ہیں۔

متعلقہ پوسٹ