ایک تاریخی قدم یا دیر سے آیا ہوا فیصلہ؟

Screenshot 2025 09 21 at 17.21.49

آج اکیس ستمبر ۲۰۲۵ء کو برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے بالآخر فلسطین کو باضابطہ طور پر ریاست تسلیم کر لیا۔ یہ فیصلہ سفارتی لغت میں محض ایک اعلان نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط سیاسی کشمکش اور انسانی المیوں کے بعد ایک ایسا موڑ ہے جو مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ برطانیہ کے وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ نے اسے فلسطینی عوام کے ناقابلِ تنسیخ حقِ خود ارادیت کی توثیق قرار دیا اور واضح کر دیا کہ یہ فیصلہ حماس کے بارے میں نہیں بلکہ فلسطینی عوام کے مستقبل کے بارے میں ہے۔

اس اعلان کے پسِ منظر میں تین تلخ حقیقتیں ہیں: غزہ کی تباہ کن جنگ جس نے ہزاروں زندگیاں نگل لیں، مغربی کنارے میں اسرائیل کی غیر قانونی آبادکاریاں جنہوں نے دو ریاستی حل کی بنیاد کو کھوکھلا کر دیا، اور حماس کی پالیسی جس نے مغویوں کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ ان حالات میں برطانیہ کا یہ اعلان اپنے اندر ایک اخلاقی وزن رکھتا ہے کہ اب اگر دو ریاستی حل کو قابلِ عمل رکھنا ہے تو دونوں ریاستوں کو برابر تسلیم کرنا ضروری ہے۔

یہ فیصلہ یقیناً اسرائیل کے لیے خوش آئند خبر نہیں۔ اسرائیلی حکومت نے اسے “دہشت گردوں کے لیے انعام” قرار دیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ عالمی برادری اب یک طرفہ رویہ اختیار کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر اسرائیل اپنے وجود اور سلامتی کے حق پر زور دیتا ہے تو فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کو بھی تسلیم کرنا اتنا ہی ضروری ہے۔ یہی وہ توازن ہے جس پر مستقبل کی سفارت کاری کا دار و مدار ہوگا۔

اداریے کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا یہ فیصلہ وقت پر آیا یا بہت تاخیر سے؟ ۱۹۸۸ء میں فلسطین نے اپنی ریاست کا اعلان کیا تھا، اس کے بعد اقوامِ متحدہ کی قراردادیں اور مذاکراتی کوششیں ہوتی رہیں، مگر مغربی طاقتیں خاموشی سے اسرائیلی پالیسیوں کو سہارا دیتی رہیں۔ آج جب حالات حد سے گزر گئے، تب انہیں یہ فیصلہ کرنا پڑا۔ بلاشبہ، اس میں تاخیر نے اعتماد کو مجروح کیا ہے۔ تاہم تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ بڑے فیصلے اکثر ایسے وقت آتے ہیں جب حالات ناقابلِ برداشت ہو جائیں۔

یہ اعلان بذاتِ خود کوئی معجزہ نہیں، مگر یہ ایک اشارہ ہے کہ دنیا کے اہم جمہوری ممالک فلسطین کو محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقی ریاست کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔ اصل امتحان اب آگے ہے: کیا مغوی رہا ہوں گے؟ کیا جنگ بندی پائیدار ہوگی؟ کیا فلسطینی اتھارٹی اصلاحات لا کر ایک مؤثر حکومت کھڑی کر سکے گی؟ اور کیا اسرائیل اپنے رویے میں نرمی لا کر مذاکرات کی میز پر واپس آئے گا؟

اداریہ نگار کی نظر میں یہ قدم دیر سے آیا مگر بالآخر آیا ضرور ہے۔ یہ تاریخ کا وہ لمحہ ہے جو اگر سنجیدہ سفارت کاری اور عالمی دباؤ کے ساتھ جڑا رہا تو خطے میں امن کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ صرف ایک علامتی اعلان ثابت ہوا تو پھر یہ بھی ماضی کی ان بے شمار ناکام کوششوں میں شامل ہو جائے گا جو فلسطین اور اسرائیل کے درمیان قیامِ امن کی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئیں۔

متعلقہ پوسٹ