پی ٹی آئی کا مشن نور: مذہبی کارڈ کے سہارے سبوتاژ کرنے کی کوشش!

Fazal Khokhar scaled

پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے حالیہ دنوں ایک نئی مہم کا آغاز کیا ہے جسے “مشن نور” کا نام دیا گیا ہے۔ اس مہم کے تحت عوام کو کہا گیا ہے کہ وہ 20 ستمبر کی رات نو بجے اپنی چھتوں پر اذان دیں اور یوں ایک علامتی اور روحانی احتجاج ریکارڈ کروائیں۔ تحریک انصاف کے حلقوں کے مطابق اس اقدام کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا اور سابق وزیرِاعظم عمران خان سمیت قیادت کے حق میں ایک پرامن اور منفرد انداز میں آواز بلند کرنا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بڑے پیمانے پر مہم چل رہی ہے، مختلف شہروں میں نوجوان اور خواتین اس کو آگے بڑھا رہے ہیں، اور کلپس اور گرافکس وائرل ہو رہے ہیں۔

ریاستی اداروں میں بھی اس نئی مہم نے ہلچل پیدا کی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کو اس بات کی تشویش ہے کہ اگر یہ عمل بڑے پیمانے پر کیا گیا تو اسے ایک اجتماعی سیاسی مظاہرے کے طور پر لیا جائے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مذہبی عمل کو سیاسی احتجاج کے ساتھ جوڑنا ریاست اور مذہب کے درمیان باریک لکیر کو دھندلا سکتا ہے جبکہ حامی اسے پرامن اور تخلیقی احتجاج قرار دے رہے ہیں، جس میں نہ جلوس ہے، نہ نعرے بازی اور نہ ہی تشدد۔

اسی دوران بعض حلقوں کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ جماعت احمدیہ 20 ستمبر کو کوئی خاص دن مناتی ہے یا یہ کہ “مشن نور” جماعت احمدیہ کی اصطلاح ہے۔ یہ دعویٰ محض سوشل میڈیا اور غیر معتبر ذرائع کی اختراع ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ایک معتبر احمدی نے واضح الفاظ میں کہا کہ جماعت احمدیہ کا کسی سیاسی جماعت یا احتجاجی مہم سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی وہ کسی مخصوص تاریخ کو کوئی تقریب مناتی ہے۔ جماعت کے نشریات اور لٹریچر میں ایسی کوئی اصطلاح یا روایت موجود نہیں۔ جماعت کا موقف یہی ہے کہ عبادات اور تقاریب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور جو بھی دعوے جماعت کے نام پر سامنے آئیں ان کی تصدیق کے بغیر انہیں معتبر نہیں سمجھا جا سکتا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے کی روایت کوئی نئی بات نہیں۔ 1970 اور 80 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق نے اسلامائزیشن کے نام پر قوانین اور نصابِ تعلیم میں مذہبی رنگ بھر کر سیاسی طاقت کو مضبوط بنایا۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں مذہب کو مخالفین کو کمزور کرنے یا عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے بار بار استعمال کیا گیا۔ کبھی سیاسی جماعتوں نے مخالفین کو کافر یا غدار قرار دے کر عوامی جذبات بھڑکائے، کبھی مذہبی قوانین کے ذریعے اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا اور کبھی مذہب کے نام پر عوامی حمایت سمیٹنے کی کوشش کی گئی۔ اس ضمن میں “قادیانی کارڈ” بارہا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوا۔ احمدیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دینے کے بعد سے مختلف حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے موقع پرستی کی بنیاد پر احمدیوں کے خلاف نعرے بلند کیے، ان کے خلاف جذبات کو بھڑکایا اور یوں عوامی ووٹ یا طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ رویہ نہ صرف احمدیوں کے لیے بلکہ مجموعی طور پر اقلیتوں کے لیے عدم تحفظ کا باعث بنا اور پاکستانی معاشرے کو فرقہ وارانہ تقسیم میں مزید دھکیل دیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مذہب کو سیاست کا ہتھیار بنانے سے وقتی فائدے ضرور حاصل کیے جاتے ہیں لیکن یہ عمل طویل المدت میں معاشرتی ہم آہنگی کو توڑ دیتا ہے۔ آج بھی مذہبی کارڈ مختلف صورتوں میں سیاسی میدان میں استعمال ہو رہا ہے، جس سے ایک طرف عوامی جذبات کو بیدار کیا جاتا ہے اور دوسری طرف اقلیتیں مزید دیوار سے لگتی ہیں۔

موجودہ “مشن نور” بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ خالصتاً ایک سیاسی اور عوامی تحریک ہے جس کا مقصد سیاسی قیادت کے لیے حمایت حاصل کرنا ہے، لیکن اسے جماعت احمدیہ یا کسی مذہبی فرقے سے جوڑنے کی کوشش سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ جماعت احمدیہ نے دو ٹوک انداز میں واضح کیا ہے کہ نہ وہ 20 ستمبر کو کوئی دن مناتی ہے اور نہ ہی “مشن نور” جیسی اصطلاح اس کے نظام یا روایت کا حصہ ہے۔

یوں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ “مشن نور” دراصل تحریک انصاف کے حامیوں کی ایک علامتی مہم ہے جس کے ذریعے وہ اپنے قائد کے حق میں پرامن احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔ یہ عوامی جدوجہد کا ایک نیا انداز ہے جو آنے والے دنوں میں پاکستان کی سیاسی فضا میں مزید موضوعِ بحث رہے گا، لیکن اس کا جماعت
احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں۔

متعلقہ پوسٹ