اسلام آباد :خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سفارتی اور سکیورٹی ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان اور ایران سے لاکھوں افغان شہریوں کی واپسی افغانستان میں دہشت گرد تنظیم داعش کی سرگرمیوں کو بڑھا سکتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2025 سے اب تک تقریباً 26 لاکھ افغان اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد ان افراد کی ہے جو کئی دہائیوں سے پاکستان اور ایران میں مقیم تھے، جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو پہلی بار افغانستان جا رہے ہیں۔ ماہرین کے خیال میں اچانک اور بڑے پیمانے پر یہ نقل مکانی افغانستان کی نازک معاشی و سکیورٹی صورتحال کو مزید غیر مستحکم کر سکتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی ایک کمیٹی کے سابق رابطہ کار ہینز جیکب شنڈلر کے مطابق خطرہ ہے کہ داعش خراسان ان واپس آنے والے افغانوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے لیے استعمال کرے گی۔ ان کے مطابق ’’بے روزگار، بے گھر اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار افراد دہشت گرد گروپوں کے لیے سب سے آسان ہدف ہوتے ہیں‘‘۔
پاکستان اور ایران نے گزشتہ چند برسوں میں افغان مہاجرین کی واپسی کی مہم تیز کر دی ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہری ملک کی سکیورٹی اور معاشی وسائل پر بوجھ ہیں۔ ایرانی حکام بھی یہی مؤقف رکھتے ہیں کہ ملک کی کمزور معیشت مزید مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔
افغانستان میں طالبان حکومت پہلے ہی معاشی بحران، انسانی حقوق کے مسائل اور عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ داعش خراسان نے گزشتہ برسوں میں کئی بڑے حملے کیے ہیں، جن کے نتیجے میں عام شہری اور اقلیتی برادریاں نشانہ بنی ہیں۔ سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر واپس آنے والے لاکھوں افغان شہریوں کو روزگار اور بنیادی سہولیات نہ ملیں تو داعش اور دیگر شدت پسند گروپوں کے لیے بھرتی کا عمل آسان ہو جائے گا۔
سفارتی حلقوں کے مطابق یہ صورتحال خطے میں دہشت گردی کے پھیلاؤ، منشیات کی اسمگلنگ اور سرحدی سلامتی کے مسائل کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے