خدا کی بے آواز لاٹھی

Screenshot 20251015 121954 1

تحریر:عرفان احمد خان

مطالعہ تاریخ پاکستان سے معلوم پڑتا ہے کہ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی جس کا پہلا اجلاس دس اگست 1947 کو کراچی میں ہوا اس کے ممبران کی کل تعداد 69 تھی جس میں 55 ممبران مسلم اور 14 اراکین غیر مسلم تھے ۔ قانون ساز اسمبلی کا ماحول بہت ہی لبرل تھا ۔ مذہب پر یقین رکھنے اور مذہب سے وابستہ ممبران اسمبلی ایک دوسرے کے مذہبی خیالات کا احترام کرنے والے اور آپس کے لین دین میں حد درجہ آزاد تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم کی دستور اسمبلی میں کی جانے والی 11 اگست کی تقریر پر کسی طرف سے کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا ۔ اسلام پسند اسمبلی میں موجود ضرور تھے لیکن ان کی مذہبی سوچ اس سیاسی ماحول کی تابع تھی جس کا تقاضا ملک کے سیاسی حالات کر رہے تھے ۔اسمبلی میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا محمد عبداللہ البقیع کی موجودگی اسلام پسندیدگی کے حوالے سے کسی پریشانی کا باعث نہیں بنی ۔ قائد اعظم کے رخصت ہونے کے بعد اسلام پسند سوچ کا اظہار قانون ساز اسمبلی میں شروع ہوا اور پھر قرارداد مقاصد کے پاس کئے جانے کے بعد ملکی سیاست میں مذہب کی مداخلت کا دروازہ کھلنا شروع ہوا جس کا پہلا شاخسانہ 1953 میں فسادات پنجاب کی صورت میں ظاہر ہوا جس میں لاہور میں فوج کو طلب کرنا پڑا ۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کی بیوروکریسی اور عدلیہ میں انگریز کے تربیت یافتہ افسران غالب اکثریت میں تھے
اسی لئے منیر کمشن نے ان حالات و واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بعد جو رپورٹ لکھی اس میں مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لئے حکومت کو راہنمائی بھی مہیا کی ۔ لیکن بعد میں انے والی حکومتوں نے اس رپورٹ کو کبھی قابل عمل نہیں گردانا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام پسند طبقات نے معاشرہ میں جڑیں پکڑنی شروع کیں ۔ مذہبی جماعتیں عملی سیاست کا حصہ بن گئیں ۔ سیاست کو اسلام کا لبادہ اوڑھا دیا گیا جبکہ تیسری دنیا میں سیاست نام ہے جھوٹ اور ریاکاری کا ۔ نظام مصطفٰے کے نام پر اس ملک میں جس سیاست کا آغاز کیا گیا اس نے ملکی قوانین کو اسلام کا لبادہ اوڑھانےکا ایک ایسا سلسلہ چل نکلا جس کو آگے بڑھانے کا کام ہر حکمران نے گویا اپنے پر فرض کر لیا ۔ زولفقار علی بھٹو ، ضیاء الحق اور حتی کہ پرویز مشرف کا شمار بھی ان حکمرانوں میں ہوگا جنہوں نے اپنے اقتدار کی خاطر ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی پالیسی اپنائی اور ان کی غلطیاں آج بھی ملک پر مسلط ہیں ۔ بلکہ ان حکمرانوں کے بنائے قوانین نے آج بھی ملک کو جکڑا ہوا ہے ۔ مسلم لیگ اور تحریک انصاف نے بھی ان نا انصافیوں کو جاری رکھنے میں عافیت سمجھی ۔ مذہب کی آڑ میں سیاست کرنے کا نقصان یہ ہوا کہ تہتر فرقوں نے اپنے طریق مذہب کو سیاست میں داخل کر دیا ۔ اس طرح سیاسی پارٹیاں کمزور اور مذہب کی نام پر سیاست کرنے والے جتھے مظبوط ہوتے چلے گئے ۔ انہوں نے معاشرہ کو اپنا محکوم بنانے کے لئے مذہب کی آڑ میں پر تشدد سیاست کو رواج دیا ۔ ملک کی بڑی آبادی علم اور سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہے ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوے ان میں مذہبی جذبات بھڑکا کر ان کو تشدد کے راستہ پر لگا دیا گیا ۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے سے کمزور پر ہاتھ ڈالتا ہے ۔ اس کی مثال تحریک لبیک کا وہ رویہ ہے جو
اس نے پنجاب کے قصبات اور ملک کے بعض شہروں میں احمدی حضرات کے ساتھ اپنا رکھا ہے ۔ مسجدوں کے مینار ، محراب گرانے ، قبرستانوں میں جاکر مرحومین کی قبروں سے کتبے اکھاڑنے ،قبروں کی بے حرمتی کرنی ، تدفین میں روکاوٹیں ڈالنا ، مردے دفن نہ ہونے دینا ، غریب اور بے بس لوگوں کا اپنے عزیزوں کی تدفین کے لئے مجبورا دوسری جگہوں پر لے جانا اب روز کا معمول بن گیا ہے ۔ اکثر جگہوں پر تحریک لبیک کے جتھوں کے آگے مقامی پولیس نے اپنی بے بسی کا اظہار کر کے مظلوم کی مدد سے انکار کیا۔ یہ ساری کاروائیاں یا رسول اللہ کے نعروں کے درمیان کی جاتی ہیں ۔ اپنے رسول صل اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اظہار کا یہ انوکھا طریق صرف پاکستان میں رائج ہے ۔ رحمت آلا العالمین کو سیاست میں گھسیٹنے کی بدولت آجکل تحریک لبیک پر برے دن اے ہوئے ہیں ۔ تحریک لبیک اور ان کے قائدین آجکل خدا کی گرفت میں ہیں ۔ جس کثرت سے زخمیوں کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہیں اس میں آہ و بکا کے مناظر دیکھے نہیں جاتے ۔ ہر طرف مدد کے لئے یا رسول اللہ کی پکار ہے ۔ یا رسول اللہ ہم پر گولیاں برس رہی ہیں ۔ہم شہید ہو رہے ہیں ۔یا رسول اللہ ہمیں بچاؤ ۔ جن صحابہ کے اسوہ پر چلنے کے دعویٰ دار ہو ۔وہ تو شہادت کی تمنا رکھتے تھے ۔تم بچانے کی بات کرتے ہو ۔ خدا کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے ۔ کاش سمجھ جاؤ ۔ توبہ کی طرف مائل ہو جاؤ ۔ توبہ کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا ۔ جن کو پیرو مرشد مانتے ہو جن کے حکم پر قبروں کی بے حرمتی کرتے ہو ان کی اسلام سے محبت سرمایہ اکھٹا کرنے کے لئے ہے ۔ سعد رضوی کے گھر سے 11 کروڑ 44 لاکھ پاکستانی کرنسی ۔پچاس ہزار بھارتی کرنسی ، 25 لاکھ روپے کے برابر فارن کرنسی اور 6 کروڑ 34 لاکھ مالیت کا سونا پکڑا گیا ہے ۔ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے لئے ایف آئی اے کی مشترکہ ٹیم پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم اپنا کام شروع کر چکی ہے ۔ لاہور میں 25 مقدمات ناموں کے ساتھ درجنوں نا معلوم افراد کے خلاف درج کئے گئے ہیں ۔
اس کو آپ مکافات عمل کہیں یا خدا کی بے آواز لاٹھی ۔ سچ وہی ہے جو کسی نے کہا تھا ۔ ہیں درندے ہر طرف میں ہوں عافیت کا حصار ۔ مفتی منیب الرحمان اپنےکہے پر نادم ہو ۔ توبہ کرو ۔ کہ توبہ کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا ۔

متعلقہ پوسٹ