یورپ کا انیسواں وار: کیا پابندیاں روس کی جنگی قوت کو بدل سکیں گی؟

Screenshot 2025 09 19 at 15.00.18

یورپی یونین، جو کبھی دوسری عالمی جنگ کی ہولناکیوں کے بعد امن اور استحکام کا قلعہ بنانے کے عزم کے تحت وجود میں آئی تھی، آج اپنے سب سے طاقتور ہتھیار کے طور پر اقتصادی قوت کو استعمال کر رہی ہے۔ برسلز کی جانب سے روس کے خلاف پابندیوں کے انیسویں پیکیج کی تیاری کا اعلان محض ایک رسمی یا دفتری کارروائی نہیں بلکہ ایک ایسی حکمتِ عملی کا تسلسل ہے جو 2014 میں روس کی یوکرین پر پیش قدمی اور 2022 کی بھرپور جنگ کے بعد مسلسل سخت سے سخت تر ہوتی جا رہی ہے۔ اب پابندیاں صرف ردعمل نہیں رہیں بلکہ یورپ کے لیے جنگ میں براہِ راست مداخلت کے بغیر اپنی پوزیشن واضح کرنے کا ایک ذریعہ بن چکی ہیں۔

نئے پیکیج کا مقصد کریملن کے مالیاتی اور عسکری وسائل کے راستے کاٹنا ہے۔ مخصوص بینک لین دین پر پابندی، روس سے منسلک خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری پر کڑی نگرانی، اور مصنوعی ذہانت و جغرافیائی ٹیکنالوجی جیسی جدید برآمدات پر قدغن اس حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ یورپی یونین اب روس کی طاقت کے صرف توانائی کے ذرائع کو ہی نہیں بلکہ اس کی تیز رفتار موافقت اور عالمی سطح پر پھیلنے والے تجارتی جال کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ آج کی جنگ توپ اور ٹینک سے نہیں بلکہ سافٹ ویئر، سیٹلائٹ اور مالیاتی چینلز سے بھی لڑی جا رہی ہے، اور یہی وہ رگ ہے جس پر یورپ وار کرنا چاہتا ہے۔

لیکن پابندیوں کا ہتھیار تاریخ میں نیا نہیں۔ 1930 کی دہائی میں لیگ آف نیشنز نے مسولینی کے خلاف اس کا سہارا لیا، مگر بڑے ممالک کی کمزور نفاذی قوت کے باعث وہ ناکام رہا۔ نپولین کے دور میں برطانیہ نے براعظمی ناکہ بندی سے فرانس کو مفلوج کرنے کی کوشش کی، مگر روس نے اسے سہہ لیا۔ سرد جنگ میں بھی روس نے مغرب کی معاشی تنہائی برداشت کر کے اپنی ریاست کو قائم رکھا۔ اس تاریخی تسلسل کی روشنی میں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا صرف پابندیاں ایک ایسی ریاست کی مرضی توڑ سکتی ہیں جو مصائب کو صبر و حوصلے کی علامت بنا کر پیش کرتی ہے۔

تاہم موجودہ پابندیاں ماضی سے اس لیے مختلف ہیں کہ یہ براہِ راست جدیدیت کے ڈھانچے کو ہدف بناتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت، جغرافیائی نقشہ سازی اور مالیاتی نظام محض آسائش نہیں بلکہ آج کی جنگ میں بنیادی ضرورت ہیں۔ یورپی یونین چاہتی ہے کہ روس کو نہ صرف حالیہ جنگی صلاحیت میں کمزور کرے بلکہ مستقبل میں اس کی تکنیکی ترقی کو بھی سست کر دے۔ اسی لیے وہ خصوصی اقتصادی زونز پر گرفت سخت کر رہی ہے تاکہ روس تیسرے ممالک کے ذریعے اپنی سرگرمیوں کو چھپا نہ سکے۔

یقیناً یہ صرف روس کی آزمائش نہیں بلکہ یورپ کی اپنی یکجہتی کا امتحان بھی ہے۔ ہر نئی پابندی پر 27 رکن ممالک کی متفقہ رائے درکار ہوتی ہے۔ مہنگائی، توانائی کے بحران اور عوامی بے چینی یکجہتی کو کمزور بنا سکتے ہیں۔ کریملن کو امید ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی کمزور کڑی ضرور ملے گی جو یورپی صف کو توڑ دے۔

اس کے علاوہ ان پابندیوں کے اثرات صرف روس تک محدود نہیں رہتے بلکہ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں بھی محسوس ہوتے ہیں، جہاں روس نئے تجارتی شراکت دار تلاش کر رہا ہے۔ بھارت رعایتی تیل خرید رہا ہے، چین ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے اور افریقی ممالک اناج و اسلحہ کے بدلے حمایت دے رہے ہیں۔ یوں پابندیاں روس کو مغربی دائرے سے مزید دور کر کے ایک نئے کثیر قطبی عالمی نظام کی راہیں ہموار کر رہی ہیں۔

پھر بھی ان اقدامات کو بیکار کہنا درست نہ ہوگا۔ روسی معیشت ڈھیر نہیں ہوئی مگر سکڑ ضرور گئی ہے۔ سرمایہ تک رسائی محدود ہو گئی ہے، جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد کمزور پڑی ہے اور روسی اشرافیہ عالمی سطح پر گھیرے میں ہے۔ یہ اقدامات علامتی طور پر بھی اہم ہیں کیونکہ یہ دنیا کو واضح پیغام دیتے ہیں کہ جارحیت کی قیمت ہے اور سرحدیں محض طاقت کے زور پر نہیں بدلی جا سکتیں۔

یوں پابندیوں کا انیسواں پیکیج ایک اقتصادی دستاویز سے بڑھ کر ایک اخلاقی اعلامیہ ہے۔ یہ اس یورپ کی کہانی سناتا ہے جسے طاقت کی پرانی زبان دوبارہ سیکھنا پڑی، مگر قانون و انصاف کے اپنے نئے اصولوں کو تھامے رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ یونان کے "میگارا فرمان” سے لے کر سرد جنگ تک کی تاریخ کا حصہ ہے اور اب یورپی یونین اسے اپنے عہد میں آگے بڑھا رہی ہے۔

یہ واضح نہیں کہ یہ پابندیاں روس کی حکمتِ عملی بدل سکیں گی یا نہیں۔ تاریخ کہتی ہے کہ صرف پابندیاں شاذ و نادر ہی فیصلہ کن ثابت ہوئی ہیں۔ لیکن یہ میدانِ جنگ کے توازن کو ضرور بدل دیتی ہیں، کمزور کرتی ہیں، محدود کرتی ہیں اور دنیا کو اشارہ دیتی ہیں کہ طاقت کا بے لگام استعمال قابلِ قبول نہیں۔ آخرکار یہ یورپ کے صبر و استقامت پر بھی انحصار کرے گا کہ وہ اس جدوجہد کو کب تک جاری رکھ سکتا ہے۔

جب انیسواں پیکیج برسلز کی راہداریوں سے گزر کر رکن ممالک میں پہنچتا ہے تو تاریخ کے مناظر آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں: نپولین کی ناکہ بندی، لیگ آف نیشنز کی ناکامی، سرد جنگ کے معاشی محاصرے۔ یہ سب یاد دلاتے ہیں کہ اقتصادی جنگ صدیوں پرانی روایت ہے اور اس کے نتائج ہمیشہ غیر یقینی رہے ہیں۔ آج یورپی یونین اپنی بے پناہ منڈی کو ڈھال اور تلوار دونوں بنا کر اسی روایت میں قدم رکھ رہی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ تاریخ اس بار کس کے حق میں جھکتی ہے۔
تحریر: فضل الرحمن کھوکھر

متعلقہ پوسٹ